یہ ستارے ہیں یا گیس کے بادل؟ کہکشانی مرکز کے قریب پراسرار اجرامِ فلکی دریافت

کیلیفورنیا: ماہرین فلکیات نے ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز سے قریب ہی کچھ ایسے اجرامِ فلکی دریافت کیے ہیں جو دیکھنے میں تو گیس کے بادل ہیں لیکن ان کا طرزِ عمل بالکل ستاروں جیسا ہے۔ انہیں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (یو سی ایل اے) میں ماہرینِ فلکیات کی ایک ٹیم نے دریافت کیا ہے۔یہ اجرامِ فلکی کچھ وقت کےلیے ستارے بن جاتے ہیں اور کچھ وقت کےلیے وسیع و عریض گیسی بادل کا روپ دھار لیتے ہیں۔

یہ عجیب و غریب اجرامِ فلکی، جنہیں ’’جی آبجیکٹس‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے، ہماری کہکشاں کے مرکز میں واقع عظیم و جسیم بلیک ہول (سپر میسیو بلیک ہول) کے گرد بڑی تیزی سے چکر لگا رہے ہیں جبکہ ان کا مدار (آربٹ) اچھا خاصا بیضوی یعنی کسی لمبوترے انڈے کی طرح ہے۔

اپنے مدار میں جب ان ’’جی اجسام‘‘ کا فاصلہ، کہکشانی مرکز والے عظیم و جسیم بلیک ہول سے زیادہ ہوتا ہے تو یہ گول حالت میں (کسی ستارے کی طرح) سمٹے رہتے ہیں لیکن جیسے جیسے یہ اس سے قریب ہوتے ہیں، ویسے ویسے یہ پھیلتے چلے جاتے ہیں اور عظیم و جسیم بلیک ہول سے زیادہ قریب ہونے پر یہ کسی عظیم الشان گیسی بادل کی طرح بکھر کر پھیل جاتے ہیں۔

جی آبجیکٹس کا یہ طرزِ عمل، ہمارے نظامِ شمسی میں دکھائی دینے والے دُم دار ستاروں (کومیٹس) سے بہت ملتا جلتا ضرور ہے لیکن اس کے مقابلے میں کہیں بڑے پیمانے پر، اور کہیں زیادہ توانائی کی حالت لیے ہوئے ہے۔

سورج کے گرد دُم دار ستاروں کا مدار انتہائی بیضوی ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مدار کا بیشتر حصہ سورج سے دور، انتہائی سرد اور تاریک ماحول میں گزارتے ہیں۔ تب یہ ایک دیوقامت اور ٹھوس چٹان کی شکل میں ہوتے ہیں۔ تاہم جوں جوں وہ سورج کے قریب آتے ہیں، توں توں ان کی رفتار بھی بڑھتی جاتی ہے۔

وہ (سورج کی شدید حرارت سے) گرم ہو کر بھاپ میں بدلنے لگتے ہیں اور ہمیں ’’دُم دار ستارے‘‘ کی شکل میں نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایک دُم دار ستارے کی دُم اس وقت سب سے طویل ہوتی ہے جب وہ سورج سے کم ترین فاصلے پر ہوتا ہے۔یعنی جی آبجیکٹس کو اپنے طور پر سمجھنے کےلیے ہم دُم دار ستاروں کی مثال کا سہارا لے سکتے ہیں۔ لیکن دُم دار ستارے ’’اصلی ستارے‘‘ نہیں ہوتے؛ جبکہ ’’جی اجرام‘‘ میں بیک وقت ستاروں اور گیسی بادلوں والی خصوصیات یکجا ہوتی ہیں۔

جی آبجیکٹس دریافت کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں سے بعض اجرام ’’صرف‘‘ 100 سال میں کہکشانی مرکز والے سپر میسیو بلیک ہول کے گرد ایک چکر پورا کرلیتے ہیں جبکہ بعض اجسام کو ایک چکر میں 1000 سال لگ جاتے ہیں۔

اب تک اس قسم کے 6 اجرامِ فلکی دریافت ہوچکے ہیں جنہیں G1 سے لے کر G6 تک کے عارضی نام دے دیئے گئے ہیں۔ ان میں سے پہلے دو اجرامِ فلکی 2005ء میں دریافت کیے گئے تھے جنہیں ایسے ستارے سمجھ لیا گیا تھا جو دو ستاروں کے آپس میں ٹکرانے سے بنے ہوں۔

حالیہ مہینوں کے دوران اسی قسم کے مزید اجرام کی دریافت سے ماہرین کو اندازہ ہوا کہ شاید انہوں نے آسمان میں پائے جانے والے اجسام کی ایک بالکل نئی قسم دریافت کرلی ہے۔
‘‘ بشکریہ ’’نیچر