امریکا طالبان امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں: وزیراعظم عمران خان

لاہور: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ فریقین یقینی بنائیں کہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے خواہاں عناصر موقع نہ پاسکیں۔قطر کےدارالحکومت دوحہ میں ہونے والے طالبان اور امریکا کے تاریخی امن معاہدے کے بعد ٹویٹ کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان ہوالے تاریخی معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ امن اور مفاہمتی عمل کا آغاز ہے۔

عمران خان نے لکھا کہ ہمیشہ کہا کہ افغانستان کا امن مذاکرات سے ممکن ہے۔ افغان معاملے کےسیاسی حل پرزوردیا۔ فریقین یقینی بنائیں کہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے خواہاں عناصر موقع نہ پاسکیں۔، میری دعائیں افغان عوام کے ساتھ ہیں جنہوں نے گزشتہ 4 دہائیاں خونریزی کے دوران گزاریں۔پاکستان، افغانستان میں قیام امن کے لیے اس معاہدے کی بقا و کامیابی میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے مکمل پرعزم اور تیار ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ کتنی ہی پیچیدہ صورتحال کیوں نہ ہو، امن کا معنی خیز دروازہ سیاسی حل ہی سے کھلتا ہے۔

اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی محنت، قربانیاں رنگ لائیں، افغانیوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ اب خود کرنا چاہیے۔آج دنیا میں پاکستان کے کردارکوسراہا جارہا ہے۔ بھارت بالکل نہیں چاہتا تھا امن معاہدے میں پیشرفت ہو۔امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ کچھ قوتوں نے رخنا اندازی کی ہرممکن کوشش کی۔ پاکستان کی محنت،قربانیاں رنگ لائیں۔افغانستان میں امن کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے افغانیوں کواکسانے کی ہرممکن کوشش کی، افغانیوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔ الحمداللہ ہماری نیت صاف تھی بات آگے چلتی رہی۔

وفاقی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اجلاس کے دوران بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوشش کی یہاں پر بھی دشمن کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پر امن، مستحکم، متحد اور خوشحال افغانستان کی حمایت جاری رکھیں گے۔ پاکستانی موقف کی توثیق کردی کہ افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں۔عائشہ فاروقی کا کہنا تھا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے لیے پاکستان نے سہولت کاری کےلیے اپنی ذمہ داریاں ادا کی۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان پرامن، مستحکم، متحد، جمہوری و خوشحال افغانستان کی حمایت جاری رکھے گا۔ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن، استحکام اور ترقی کے لیے افغان عوام کی حمایت جاری رکھے گا۔ان کا کہنا ہے کہ آج کی تقریب نے پاکستانی موقف کی توثیق کردی کہ افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں، وزیراعظم نے تسلسل کے ساتھ افغانستان کے لیے سیاسی حل کو ہی واحد راستہ قرار دیا۔

امریکا طالبان امن معاہدے کے اہم نکات خطے میں امن کے لیے پاکستانی کوششیں رنگ لے آئیں، دوحہ میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے پر دستخط ہو گئے، امریکا اور اتحادی 14 ماہ میں افغانستان چھوڑ جائیں گے، فریقین کے درمیان 10 روز میں جنگی قیدی رہا کرنے پر بھی اتفاق ہو گیا، طالبان نے اپنی سر زمین امریکا اور اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔

دوحہ کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی تقریب میں پاکستان کے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت 50 ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے۔معاہدے کے تحت طالبان افغان سرزمین کو امریکا اور اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دیں گے، عالمی مبصرین امن معاہدے کی پاسداری کے ضامن ہوں گے۔

طالبان 10 مارچ کو افغانستان کے اندر مختلف گروہوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں گے جہاں فریقین کے درمیان جنگ بندی کی تاریخ طے پائے گی۔امریکا اور اتحادی 14 ماہ میں تمام افواج، غیر سفارتی سویلینز، پرائیویٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز اور ایڈوائزرز کا انخلایقینی بنایا جائے گا،

معاہدہ کے 135 دن کے اندر 5 فوجی اڈوں سے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا۔معاہدے کے تحت امریکا فریقین کے ساتھ مل کر سیاسی اور جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے منصوبہ بنائے گا، 10 مارچ تک طالبان کے 5 ہزار جبکہ طالبان کی جانب سے 1 ہزار قیدی رہا کئے جائیں گے۔

امریکا27 اگست تک طالبان کے تمام ممبران سے پابندی ہٹائے گا جبکہ سلامتی کونسل کے ساتھ سفارتی کوششوں کے ذریعہ 29 مئی تک طالبان کے نمائندوں کے نام پابندیوں کی فہرست سے نکالے جائیں گے۔

معاہدے کی رو سے طالبان امریکا اور اتحادیوں کے لئے خطرہ بننے والے افراد کو واضح پیغام پہنچانے کے پابند ہوں گے، طالبان امریکا اور اتحادیوں کی حفاظت کی خاطر افراد اور گروہوں کو بھرتیاں کرنے، تربیت کرنے اور فنڈ ریزنگ سے روکیں گے۔

طالبان تمام پناہ گزینوں کے ساتھ بین الاقوامی ہجرت کے قانون اور اس معاہدے کے مطابق سلوک کریں گے تا کہ کوئی فرد امریکا کے لئے خطرہ نہ بنے۔

طالبان افغانستا ن میں داخلے کے لئے ان لوگوں کو ویزہ، پاسپورٹ اوردیگرقانونی دستاویز جاری نہیں کریں گے جو امریکا اورا تحادیوں کے لئے خطرہ ہوں۔

معاہدے میں طے پایا کہ امریکا معاہدہ کی توثیق کے لئے سلامتی کونسل سے درخواست کرے گا، بین الافغان مذاکرات کے بعد قا ئم ہونے والی اسلامی حکومت کے ساتھ امریکا کے مثبت تعلقات ہونگے۔امریکا مذاکرات کے بعد قائم ہونے والی افغان حکومت کے ساتھ تعمیر وترقی کے لئے معاشی تعاون کرے گا، معاہدے کے تحت امریکا افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔