’انڈر یا اوور انوائسنگ سے پاکستان کو سالانہ 7 ارب ڈالرز کا نقصان‘

گلوبل فنانشل انٹیگریٹی کے مطابق 2007 سے 2018 کے درمیان پاکستان کی عالمی تجارت میں 77 ارب ڈالرز مالیت کی انڈر یا اوور انوائسنگ ہوئی۔عالمی ادارے ‘گلوبل فنانشل انٹیگریٹی‘ نے کہا ہے کہ پاکستان کی سالانہ تجارت میں اوسطاً سات ارب ڈالرز کی انڈر یا اوور انوائسنگ (تجارتی رسیدوں سے چھیڑ چھاڑ) ہوتی ہے۔

ادارے نے عالمی تجارت میں پیسے کی غیر قانونی ترسیل سے متعلق 2008 سے 2017 تک کی رپورٹ میں پاکستان کو ترقی پذیر ایشیائی ممالک کی جگہ یعنیٰ ’مشرق وسطی/شمالی افریقی ممالک‘ کے ساتھ رکھا ہے۔تجارت کے دوران رسیدوں پر غلط قیمتیں درج کرنے سے عالمی معیشت اور 135 ممالک پر اس کے اثر پر مبنی اس رپورٹ میں افغانستان کو بھی پاکستان کے ساتھ انہی ممالک کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق 2008 سے 2017 کے دوران پاکستان کی دیگر ممالک کی تجارت میں اوسطاً سات ارب ڈالرز سالانہ سے زائد کی انڈر یا اوور انوائسنگ کی گئی۔

گلوبل فنانشل انٹیگریٹی کے مطابق ان 10 سالوں میں پاکستان کی دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں 77 ارب ڈالرز کا جھول دیکھنے میں آیا، جو پاکستان کی عالمی تجارت کا اوسطاً 17 فیصد بنتا ہے۔گلوبل فنانشل انٹیگریٹی نے یہ تخمینہ پاکستان کے سرکاری تجارتی اعداد و شمار اور جن ممالک سے پاکستان نے تجارت کی، ان کے سرکاری اعداد و شمار کو دیکھ کر لگایا۔مثال کے طور پر اگر پاکستان نے چین کے ساتھ اپنی تجارت پانچ ارب ڈالرز ظاہر کی ہے اور چین نے اپنے سرکاری اعداد و شمار میں اسی تجارت کا حجم سات ارب ڈالرز ظاہر کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان دو ارب ڈالرز کے قریب انڈر یا اوور انوائسنگ ہوئی ہے۔

انڈر یا اوور انوائسنگ کیا ہے؟انڈر یا اوور انوائسنگ سے مراد دوران تجارت اشیا کی اصل قیمت و فروخت کی بجائے رسید پر غلط قیمت درج کرنا ہے۔رسید میں یہ چھیڑ چھاڑ اس لیے کی جاتی ہے تاکہ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی سے بچا جا سکے۔ اس کے علاوہ پیسہ ملک سے باہر لے کر جانے کے لیے بھی اس طریقے کو استعمال کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر درآمد کرتے وقت ایک چیز کی قیمت 100 ڈالرز ہے تو رسید میں اس کی قیمت 120 ڈالرز ظاہر کی جائے گی۔ ایسی قیمت ظاہر کرنے کی وجہ سے خریدار اضافی 20 ڈالرز ملک سے باہر بھجوا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر قیمت کم دکھائی جائے گے تو اس درآمدی ڈیوٹی سے بچا جا سکتا ہے اور ٹیکس بھی کم ادا کرنا پڑتا ہے۔

اشیا برآمد کرتے ہوئے بھی اصل قیمت کم یا زیادہ ظاہر کی جاتی ہے اور مالی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں۔غلط تجارتی رسیدوں سے ملک کو کیا نقصان ہوتا ہے؟غلط تجارتی رسیدوں سے عموماً ترقی پذیر ممالک کو زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ جب رسیدوں میں اصل قیمت ظاہر نہیں کی جاتی تو ایک ملک کو ملنے والے ممکنہ ٹیکس سے آمدن نہیں ہو پاتی۔ اگر یہ آمدن ہو جائے تو اسے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اس پیسے سے نئی نوکریاں دی جا سکتی ہیں اور غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔دوسری جانب جب کوئی ملک درآمدات کرتا ہے تو اس سے ڈالرز دوسرے ملک جاتے ہیں مگر رسیدوں میں غلط قیمت درج ہونے سے جو ڈالرز اضافی ہوتے ہیں وہ عموماً آف شور کمپنیوں یا tax havens میں جاتے ہیں جس سے ترقی پذیر ممالک کو نقصان ہوتا ہے۔گلوبل فنانشل انٹیگریٹی کے مطابق اس نقصان سے ترقی پذیر ممالک کے لیے 2030 تک اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کی حصولی میں مشکل ہو گی۔