’پہلے فسادات اور پھر کورونا وائرس نے بے گھر کیا‘ دلی فسادات کے متاثرین 

دلی میں فروری میں ہونے والے فسادات کے دوران جو جانی و مالی نقصان ہوا اس کے عوض حکومت کی جانب سے دیے گئے معاوضے اور ریلیف کیمپوں کی حالتِ زار پر حکومت سے سوال پوچھے جا رہے تھے۔ لیکن انڈیا میں جیسے ہی کورونا وائرس کے متاثرین سامنے آنے لگے میڈیا کی توجہ ان فسادات سے ہٹ گئی۔ کورونا وائرس کا ڈر اور اس کی روک تھام کی کوششوں نے دھیرے دھیرے باقی تمام مسائل کو پیچھے دھکیل دیا۔

فسادات سے متاثرین کی زندگی میں آیا طوفان تھما نہیں تھا، بس لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ لوک سبھا میں حزبِ اختلاف کی جماعت کی جانب سے بار بار دباؤ پر 11 مارچ کو فسادات پر بحث ہوئی۔ بحث کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے بتایا تھا کہ فروری کے آخری ہفتے میں شمال مشرقی دلی میں ہوئے فسادات میں 52 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 526 زخمی ہوئے جبکہ 142 گھروں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔

تقریباً 250 خاندان شمال مشرقی دلی کے علاقے عید گاہ میں قائم کیے گئے ریلیف کیمپ اور دو درجن افراد مختلف مداراس میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ پہلے کرفیو اور پھر لاک ڈاؤن کے اعلان سے ان لوگوں سے یہ سہولیات بھی چھین لی گئیں۔وائرس کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کی غرض سے ان ریلیف کیمپوں کو ہٹا دیا گیا، یوں فسادات کے متاثرین ایک بار پھر سڑک پر آ گئے۔

طاہرہ (فرضی نام) نے بتایا کہ ’ہم اس گھر میں آٹھ برس سے کرائے پر رہ رہے تھے پر اب ہمارا سب کچھ ختم ہو گیا ہے، اس کے باوجود ہمارے ہندو مکان مالک نے مجھ سے کہا کہ دو ماہ کا کرایہ ادا کرو ورنہ کمرہ خالی کرو۔‘ ’یہی نہیں جب میں آس پاس کی دکانوں سے سامان خریدنے گئی تو انھوں نے سامان دینے سے انکار کر دیا۔‘ طاہرہ کو اپنا محلہ اپنا نہیں لگا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم وہاں دو رات ٹھہرے لیکن نیند نہیں آئی۔ گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ پھر ہمیں احساس ہوا کہ ہم مزید یہاں نہیں رہ پائیں گے۔‘ اب طاہرہ اور اس کا خاندان قریب کے مسلم اکثریت والے علاقے میں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں ایک کمرے میں رہ رہے ہیں۔

طاہرہ اور ان کی بہن ایک نجی کمپنی میں کام کرتی تھیں لیکن پہلے فسادات اور اب کورونا وائرس کے پیش نظر ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی نوکریاں چھوٹ گئیں ہیں۔ گھر کا سامان لوٹ لیا گیا اور جو جمع پونجی تھی وہ اب بھی ختم ہونے والی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کرائے ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے، کھانے کے لیے راشن کی تلاش ہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کوئی کام بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

شاہ زیب (فرضی نام) بتاتے ہیں کہ ’جب وزیر اعظم نے جنتا کرفیو کا اعلان کیا تھا تبھی یہ بات کہی جانے لگی تھی کہ ریلیف کیمپ کو ہٹا دیا جائے گا۔ تو میں اسی دن سہارنپور میں اپنے سسرال جانے کے لیے نکل گیا تھا۔ اس وقت یہ فیصلہ نہیں کرتا تو معلوم نہیں کیا ہوتا، کیونکہ اس کے بعد تو سب کچھ بند ہو گیا۔‘
شاہ زیب کہتے ہیں کہ نئی نئی شادی کے بعد اس طرح سسرال میں رہنا بھی

صحیح نہیں لگتا ہے۔ گھر صحیح کرنے کے لیے معاوضے کا انتظار ہے۔ فسادات کے بعد ان کے علاقے میں کشیدگی کی وجہ سے فیکٹری بند ہو گئی تھی اس لیے روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ شاہ زیب مزید کہتے ہیں کہ ’کچھ سمجھ نہیں آتا ۔ کہاں سے شروع کروں۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔ آگے صرف اندھیرا ہی دکھائی دیتا ہے۔‘