بھٹو ازم پر کوئی کمپرومائز نہیں، حافظ عبدالرزاق صادق

بارسلونا: بھٹو شہید کا نظریہ مٹانے والے خود مٹ گئے ہیں پر نظریہ بھٹو مٹانہ سکے حافظ عبدالرزاق صادق سیکرٹری اطلاعات و نشریات پاکستان پیپلز پارٹی یورپ نے کہا. آج چار اپریل 2020 قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو نذرانہ محبت اس عزم کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ ہم بھٹو ازم پر کسی بھی قسم کا کوئی بھی کمپرومائز نہیں کریں گے اور نا ہی ذاتی مفادات کے لیے بھٹو ازم سے غداری کریں گے. بھٹو شہید ہمارا عزم. ہمارا فخر ہے بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر ہم بھٹو شہید کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں اور نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری کی قیادت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی41ویں برسی کو، کرونا وائرس کی وجہ سے پارٹی قیادت نے روایتی جلسے جلوس موخر کردیئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت کے بعد وباء امراض کرونا وائرس کے پیش نظر پارٹی کے بانی چیئرمین ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم 1973کے آئین اور ایٹمی پروگرام کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پرطے شدہ جملہ روائتی تقریبات منسوخ کرنے کا اعلان کیاکہ چار اپریل کو قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر جلسے، جلسوس، ریلیاں،سیمینار منعقد نہیں ہوئیں ان کی برسی کے دن صبح کا آغاز مساجد شریف اور گھروں میں قرآن خوانی،فاتحہ خوانی سے ہوا

ذوالفقار علی بھٹو نے اعلیٰ و قانون کی تعلیم کیلی فورنیا اور آکسفورڈ سے حاصل کی،جنرل ایوب خان کے دور حکومت 1963 میں وزیر خارجہ کے اہم منصب پر فائز ہوئے تاہم حکومت سے شدید اختلافات کے بعد کابینہ سے الگ ہوگئے۔علیحدگی کے بعد اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر 30نومبر1967میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، پی پی پی کے منشور و مقبول ترین نعرے روٹی کپڑا اور مکان نے ذالفقار علی بھٹو کو ملک کا سب سے مقبول لیڈربنا دیا۔مغربی و مشرقی پاکستان میں سیاسی بحران و سقوط ڈھاکہ کے بعد انہوں نے اقتدار سنبھالا، جس کی وجہ سے وہ سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پھر 1971 سے 1973 تک پاکستان کے صدر رہے جبکہ 1973 سے 1977 تک وہ منتخب وزیراعظم رہے۔ آمرانہ دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت کی سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمہ میں سزائے موت سنائی اور عدالتی فیصلے پر چار اپریل1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، ان کا جسد خاکی لاڑکانہ گڑھی خدا بخش میں دفن کیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اپنے سیاسی فلسفے کی بنا پر عوام میں مرتے دم تک اور بعد میں بھی ملکی سیاست کا اہم کردار رہے، ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے افکار کو آگے بڑھایا، کئی اہم معاملات پر ناگزیز و غیر مقبول و کٹھن فیصلے بھی کرنے پڑے، تاہم بھٹو کے فلسفے کی حقیقی داعی بن کر بھٹو ازم کو بڑھاتے خود دہشت گردی کا نشانہ بن گئی، شہید رانی کی بعد پی پی پی کی سیاست بحرانوں کا شکار رہی تاہم آصف علی زرادری نے پارٹی کو بکھرنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا، اس وقت محترمہ کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری ملکی سیاست میں ایک نواجون قیادت کی صورت میں ابھرکر سامنے آئے ہیں اور بھٹو کے افکار کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ان کا سیاسی کردار قد آور و تجربہ کار سیاست دانوں کے برابر قرار دیا جاتا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے، نظریات اور سیاسی ورثے کو ختم نہیں کیا جا سکا، جس کا مستقبل میں بھی کوئی امکان نہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستا ن کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا اور آج ان کے جرت مندانہ اقدام کی وجہ سے پاکستان مسلم اکثریت ممالک میں پہلی مسلم اکثریت ایٹمی مملکت بنی۔ جس کہ وجہ سے خطے میں طاقت کا توازن برابر ہوا تیسری دنیا کے ممالک اور مسلم امہ کے اتحاد کی کوشش میں ذوالفقار علی بھٹو نے دنیا کے77ترقی پزیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور مشترکہ مسائل کو ایک ہی پلیٹ فارم سے حل کرنے کی کوششوں کا انعقاد کیا، اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا نہ صرف انعقاد کیا بلکہ مسلم امہ کے اتحاد کے لیے ایسے گراں قدر فیصلے بھی کروائے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے افکار و فلسفے کو آج بھی سیاست دان قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی بھٹو کے نظریئے کو پاکستان کے مسائل سمجھتی ہے۔ گو کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاسی مشکلات و مساعد کا سامنا ہے، ان کی ٹاپ لیڈر قیادت مختلف مقدمات کا سامنا کررہی ہے، لیکن عوام میں ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جاسکا ، پاکستان کے لئے بھٹو کی خدمات کا اعتراف عالمی قیادت کرتی ہیں، پاکستان کو موجودہ مشکلات و عالمی چیلنجوں سے باہر نکالنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو جیسے بے باک اور جرت مند لیڈر کی کمی آج بھی محسوس کی جاتی ہے کہ ان کے متبادل قیادت عوام کو میسر نہ آسکی۔