اسلام آباد کے ڈاکٹر میں کورونا وائرس کی تشخیص، ہسپتال کے مزید 30 ڈاکٹر قرنطینہ میں منتقل

اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال کے ایک ڈاکٹر میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد ہاسٹل میں موجود دیگر 30 ڈاکٹروں کو قرنطینہ منتقل کردیا گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق متاثرہ ڈاکٹر کا تعلق گلگت سے بتایا جارہا ہے جنھوں نے حال ہی میں اپنی ٹریننگ مکمل کی تھی۔

ترجمان پولی کلینک کے مطابق متاثرہ ڈاکٹر کو آئسولیشن وارڈ میں منتقل کردیا گیا ہے۔ جبکہ ان کے ساتھ ہاسٹل میں رہنے والے دیگر 30 ڈاکٹروں کو ایچ نائن قرنطینہ سینٹر منتقل کردیا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ان 30 ڈاکٹروں کی رپورٹ ایک سے دو روز میں موصول ہو جائے گی۔

ترجمان پولی کلینک نے بتایا کہ ہسپتال کے آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ یعنی او پی ڈی کو عام مریضوں کے لیے بند کردیا گیا ہے جبکہ پولی کلینک ہسپتال کا ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کھلا رہے گا۔ ترجمان نے کہا کہ یہ اقدام ضلعی انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامیہ کے بعد لیا گیا ہے۔

علاج کرنے والے بیمارکورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے سے ملک کے پبلک ہسپتالوں پر بوجھ بڑھ رہاہے۔ اس وقت ملک کے مختلف ہسپتالوں میں ڈاکٹر، نرس اور پیرا میڈیکل سٹاف محدود حفاظتی انتظامات کے باوجود کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کررہے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (پمز) کے ڈاکٹروں نے محدود انتظامات کے خلاف اپنے مشترکہ بیان میں حکومت کو متنبہ کیا کہ ڈاکٹروں کو کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے کے لیے وسائل نہ دئیے گئے تو وائرس ہسپتالوں میں بھی پھیل جائے گا۔

اس بیان کے فوراً بعد وزیرِ مملکت برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ہسپتال میں ڈاکٹروں سے ملاقات کی اور بعد میں جاری ہونے والے بیان کے مطابق ہسپتال کو تمام سامان مہیا کردئیے گئے۔

لیکن ینگ کنسلٹنٹس ایسوسی ایشن کے چئیرمین اسفندیار خان نے بتایا کہ پمز کے آئسولیشن وارڈ میں کام کرنے والے عملے کے علاوہ ہسپتال کی ایمرجنسی میں صرف سرجیکل ماسک دئیے گئے ہیں جبکہ این95 ماسک نہیں دئیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ آئسولیشن وارڈ کو دس سے تیس بستروں پر منتقل کردیا گیا ہے۔ ‘لیکن ایمرجنسی میں کام کرنے والے بغیر کسی حفاظتی سُوٹ کے مریضوں کا علاج کررہے ہیں۔اس سے ڈاکٹروں کو وائرس لگنے کا خدشہ بڑھ رہاہے۔’ انھوں نے کہا کہ ‘ہم اس وقت ایک بہت مشکل صورتحال سے دو چار ہیں۔ نرس، پیرا میڈیکل یہاں تک کہ سینیٹری سٹاف بھی ایکسپوزڈ ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ اس وقت پمز ہسپتال میں 1500 ڈاکٹر، نرس اور پیرا میڈیکل سٹاف موجود ہیں۔ ‘لیکن اگر ایک ایک کرکے یہ ڈاکٹر قرنطینہ میں جاتے ہیں تو ہمارے پاس بیک اپ کے طور پر عملہ موجود نہیں ہے۔ہم نہیں چاہتے کہ ایسے وقت میں اپنے اہم مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کا سہارا لیں۔ کیونکہ اس سے مریضوں کو نقصان ہوگا۔’

دوسری جانب کراچی کے آغا خان ہسپتال نے اپنے ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی موجودگی کے بارے میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے مشتبہ اور تصدیق شدہ مریضوں کا علاج ہسپتال میں بنائے گئے ‘مخصوص وارڈ’ میں کیا جارہاہے جس کے دوران یہ ممکن ہے کہ سخت اقدامات کے باوجود عملے میں وائرس کی تصدیق ہوسکتی ہے۔

آغا خان ہسپتال نے بیان میں یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ہسپتال کے عملے میں تصدیق ہونے کے نتیجے میں ان کا بروقت ٹیسٹ اور علاج کیا جارہا ہے۔ تاہم آغا خان ہسپتال میں کورونا وائرس کے لیے مخصوص کی گئی سکریننگ اور ٹیسٹنگ کی سہولت کو تاحال بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ لوگوں کی ایک بھاری تعداد ٹیسٹنگ کروا رہی ہے جس سے سکریننگ سینٹر میں بھیڑ جمع ہونے کا خطرہ ہے۔