کرونا ٹوٹکے اور تحقیقات؟

آج کی دنیا میں جس طرح ایک جان لیوا جرثومہ پھیل رہا ہے، بالکل اسی طرح ایک اور شے کی بھرمار ہے: تجویزوں کی یلغار۔ نہ پوچھئے کیسی کیسی تدبیریں سُجھائی جارہی ہیں، کیسے کیسے ٹوٹکے بتائے جا رہے ہیں، ایک طومار بندھا ہوا ہے۔ کورونا سے کیسے بچا جائے، اِس سوال کے جواب میں لوگ دور دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں۔ اتنی کہ اگر اُن پر عمل ہورہا ہوتا اور وہ واقعی کارگر ہوتیں تو آج ہر طرف سُکھ چین کی بنسی بج رہی ہوتی۔ جیسے یہ وائرس چین سے چلا تھا اسی طرح یہ ٹوٹکا بھارت سے چلا کہ اگر آپ کے کمرے میں گرم بھاپ بھری ہو تو کمرے میں موجود سارے کے سارے وائرس جہنم واصل ہو جائیں گے۔ اس پر ایک صاحب نے کمرے میں پریشر کُکر میں بھاپ اٹھائی اور سانس میں اتنی زیادہ بھاپ کھینچی کہ سانس کی نالی جل گئی۔ کیسی مضحکہ خیز خبر بنی ہوگی کہ ایک صاحب سانس کی نالی جھلس جانے سے مر گئے۔

بھارت کی بات چلی تو ایک نرالی ہی بات سنی، ویسے میں حیران نہیں ہوا، اِس کا سبب ابھی بتاؤں گا۔ بات یہ تھی کہ وہاں یہ خیال تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ملک بھر میں موبائل فون کے جو برقی سگنل موسلا دھار بارش کی طرح برس رہے ہیں، اُن کی وجہ سے یہ نیا نرالا وائرس پیدا ہوا اور انہی کی وجہ سے یہ کورونا پھل پھول رہا ہے۔ چنانچہ مطالبہ یہ ہے کہ ہر نکّڑ پر لگے ہوئے موبائل فون کے سگنل ابلنے والے کھمبے اُکھاڑ پھینکے جائیں۔ بلکہ کہیں کہیں تو لوگوں نے اُن کھمبوں کو آگ بھی لگادی۔ مجھے اس خبر پر حیرت اس لیے نہیں کہ ابھی چند مہینے پہلے میں ہندوستان میں تھا، جہاں میرا موبائل فون ٹھیک طرح کام نہیں کر رہا تھا۔ میرا قیام روڑکی کے ٹیکنالوجی کے بہت ہی بڑے انسٹیٹیوٹ کے مہمان خانے میں تھا جہاں میں نے ایک اہلکار سے پوچھا کہ میرا موبائل فون مجھ سے خفا لگتا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں، پبلک کی زبردست مانگ کی وجہ سے موبائل سگنل کے کھمبے کم کر دیے گئے ہیں اس وجہ سے یہ دشواری پیدا ہوئی ہے۔ ظاہر ہے میرا اگلا سوال یہی تھا کہ کھمبے کیوں کم کردیے گئے؟ پتا چلا کہ وہاں ایک عام خیال یہ ہے کہ فضا میں جو برقی سگنل کی بھرمار ہے اس سے مرد حضرات کی قوتِ تولید کم ہو جاتی ہے، آسان لفظوں میں یہ کہ ماحول میں اتنے زیادہ برقی سگنل گردش کر رہے ہیں کہ ان کے اثر سے مردوں میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ لوگ اس پر برہم ہیں، اتنے کہ سرکار کو کتنے ہی کھمبے اکھاڑنا پڑے۔ ملک میں اب برقی سگنل سے زیادہ بچوں کی بہتات ہو گی۔

انڈونیشیا کے محققین کی ایک ٹیم نے جمعرات کو بتایا کہ ایک مقامی پھل (سرخ امرود) میں کورونا وائرس سے لڑنے والے اجزا پائے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف انڈونیشیا کے محقق ڈاکٹر اری فہریال سیام نے بتایا کہ مقامی سرخ امرود میں ہیسپیڈیرن، مائریسیٹن، لیوٹیولن اور کیزوآرینن وہ اجزا ہیں جو کورونا وائرس کی دوا تیار کرنے میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

ڈاکٹر اری فہریال سیام نے اناطولیہ نیوز ایجنسی کو بتایا کہ بایو انفارمیٹکس ریسرچ سے پتا چلا ہے کہ یہ اجزا کورونا وائرس کو مکمل طور پر روکنے یا انفیکشن کے اثرات کم ترین سطح پر رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انڈونیشیا میں سرخ امرود عام پھل ہے جو بہت بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے اور اس کا رس بھی خاصا مقبول ہے۔

یونیورسٹی آف انڈونیشیا اور بوگور انسٹی ٹیوٹ آف ایگری کلچر دوا ساز کمپنیوں کو سرخ امرود کے اجزا پر مبنی ایسی دوا تیار کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے کارآمد ہوں۔