مشکلات کا حل آج کی سخت پریشان کن صورتحال پر غور و خوض

ہمارا وطن جس کا شمار ابھی تک ترقی پذیر اور کسی قدر پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے، اس پر قدرت نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اسے کورونا وائرس کی ہولناک تباہ کاریوں سے بڑی حد تک محفوظ رکھا ہے۔ اس کے باوجود ہماری مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے پہلے آبادی کا 25فیصد تھے جو آنے والے دنوں میں 40فیصد ہو جائیں گے۔ جناب عمران خان جو غریبوں کا درد محسوس کرتے ہیں، وہ مشکل حالات میں ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کے بجائے مسلسل تذبذب کا شکار ہیں۔ اس خلا میں وزیراعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ نے دوربینی اور عملی فراست کا ثبوت دیتے ہوئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا جسے بعد میں تمام صوبوں اور وفاقی حکومت نے اختیار کیا، لیکن مطلوبہ تعداد میں ٹیسٹنگ کے قابلِ اعتماد انتظامات نہ ہونے کے باعث وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کو محفوظ لباس اور آلات بروقت فراہم نہیں کیے جا سکے ہیں، حالانکہ چین کی طرف سے امدادی سامان ایک ہفتہ پہلے آچکا ہے۔

حکومت نےایک کروڑ کے لگ بھگ دہاڑی داروں کی معاشی کفالت کے لیے اربوں روپے کے پیکیجز کے اعلانات بھی کیے ہیں، فنڈ بھی قائم کر دیا ہے اور سیاسی ٹائیگر فورس کی تشکیل بھی کی جا رہی ہے مگر ناداروں اور فاقہ کشوں کو بروقت راشن اور مالی امداد پہنچانے کا کوئی قابلِ اعتماد نظام ابھی تک وجود میں نہیں آ سکا ہے۔ البتہ فلاحی تنظیمیں، مخیر شخصیتیں اور سیاسی جماعتیں خاموشی کے ساتھ سرگرم ہیں۔ ہمارے قابلِ فخر سائنسدان جناب ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ انتباہ حکومت سے نہایت غیر معمولی کارکردگی کا تقاضا کرتا ہے۔

ہماری نظر میں اس انتہائی مشکل صورتحال میں ہماری تجویز یہ ہے کہ امداد فراہم کرتے وقت غریبوں کی تصاویر نہ بنائی جائیں کیونکہ اس طرح غیرت مند شہریوں کی عزتِ نفس بہت زیادہ مجروح ہوتی ہے۔ ہم نے مختلف مقامات پرخواتین کی ایسی تصاویر دیکھی ہیں جن کی امداد وصول کرتے وقت نگاہیں زمین پر گڑی ہوئی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں کہ زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں دفن ہو جائیں۔ خدارا! قیامت جیسے ان لمحات میں خودنمائی اور سستی شہرت سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے۔

آج کی سخت پریشان کن صورتحال ایک اور اہم نکتے پر گہرے غور و خوض کی دعوت دیتی ہے، وہ یہ کہ ہمارے ہاں ہر آٹھ دس برس بعد سیاسی بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے۔ دراصل ہمارے ہاں سیاسی قیادتیں الیکٹ ایبلز کے چکر میں اپنی صفوں میں ان شخصیتوں کو شامل کر لیتی ہیں جن کا پارٹی کے نظریے اور جدوجہد کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ نون لیگ نے 2013کے انتخابات سے پہلے قاف لیگ سے شیخ رشید اور چوہدری برادران کے سوا درجنوں اشخاص اپنے ساتھ ملا لیے تھے جو بڑی ہوشیاری سے اونچے عہدوں پر فائز ہونے میں کامیاب رہے۔ آگے چل کر پارٹی کے اندر داخلی کشمکش نے سر اٹھایا اور پارٹی قیادت کو اپنی پالیسیوں اور آدرشوں پر سمجھوتا کرنا پڑا۔ اسی کے نتیجے میں قیادت کو جناب پرویز رشید، جناب مشاہد اللہ خان اور جناب طارق فاطمی کی قربانی دینا پڑی۔

پیپلزپارٹی پر بھی کچھ ایسا دور گزرا جب بیرسٹر اعتزاز احسن اپنی پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے جا رہے تھے۔ اب تحریک انصاف اسی جانکاہ مرحلے سے گزر رہی ہے۔ وہ اشخاص جو پارٹی کی تشکیل میں پیش پیش تھے، وہ ایک ایک کرکے رخصت ہوتے گئے۔ جناب ایس اکبر، جناب حامد خان اور جناب عمر چیمہ پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔ اسی طرح جناب جسٹس وجیہ الدین احمد اور تسنیم نورانی قیادت کی بے قاعدگیوں کی تاب نہ لا سکے۔ اب حکومت وہ لوگ چلا رہے ہیں جن کا تحریک انصاف کی جدوجہد میں سرے سےکوئی حصہ نہیں یا وہ غیر منتخب ہیں یا آئی ایم ایف کی ملازمت کرتے رہے ہیں۔ ہماری زندگی کا یہی سب سے خطرناک پہلو ہے جس کا آسان حل یہ ہے کہ تمام جماعتیں اس امر کا عہد کریں کہ وہ کسی طور اجنبیوں کو قبول نہیں کریں گی اور انہی اشخاص کو سیاسی اہمیت دیں گی جو سیاسی جدوجہد میں ثابت قدم رہنے اور عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کا اچھا ریکارڈ رکھتے ہوں۔

آج سیاست گری کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم جو ڈیڑھ دو سال سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف احتساب کا ہتھیار استعمال کرتے آرہے ہیں، اب یہی ہتھیار اپنے سیاسی حامیوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور جہانگیر ترین ان کا اصل ہدف معلوم ہوتے ہیں جس کے لیے چینی اسکینڈل کا ڈرامہ رچایا گیا ہے اور تحقیقاتی رپورٹ کو مشتہر کرنے پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور اس کارنامے کو ورلڈ کپ جیتنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے سیاسی کرتب سے کورونا وائرس کے خلاف جنگ کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے جس کا مداوا کسی طور نہیں ہو سکے گا اور ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ حکومت کی بار بار اپیلوں اور دن میں تین تین پریس کانفرنسوں کے باوجود عوام لاک ڈاؤن کی پابندی کر رہے ہیں نہ حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سیاسی قیادت کی عوام پر گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہےاور یہی کیفیت سیاسی بحران کو جنم دیتی ہے۔ یہ شکر کا مقام ہے کہ فوجی سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کورونا وائرس کو شکست دینے میں قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ اور قوم کو کامیابی کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ یہ وقت ہاتھ تھامنے، غیر معمولی جاںفشانی اور ایثار سے کام لینے کاہے۔