وضو بھی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا ہی ایک طریقہ ہے.. ڈاکٹرز

وبا کسی عفریت کی طرح، کسی بد دعا کی طرح نظر نہیں آتی مگر آپ کے چاروں طرف ہوتی ہے۔ انسان بہت سی بیماریوں کا علاج دریافت کر چکا ہے لیکن وائرس سے ہونے والی بیماریوں کا علاج صرف انسان کی ذاتی قوت مدافعت میں موجود ہے۔

ویکسین بھی قوت مدافعت ہی کو مہمیز کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ وائرس کی اس بے قابو فطرت کے باعث اس سے پھیلنے والی بیماریوں کے لیے بھی عجیب عجیب قیاس کیے جاتے رہے ہیں۔

چیچک کی وبا کو کالی ماتا کا قہر سمجھا جاتا تھا۔ چیچک نکلنے کے لیے لفظ ہی فلاں کو ’ماتا‘ نکلی ہے، استعمال کیا جاتا تھا۔ دنیا کی بڑی وبائیں جب بھی پھیلیں، اعتقادات، سیاست، معیشت اور انسانی سماج کو بدل کر ہی گئیں۔

اجتماعی مدافعت یا ’ہرڈ امیونٹی‘ کی طرح انسانوں کے رویے بھی وباؤں کی روک تھام کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ چھوت چھات کا تصور، تانبے کے برتنوں کو مانجھ کر استعمال کرنا اور سمندر پار جانے اور آنے والوں کو چنڈال سمجھنا، شاید وبائی امراض ہی سے بچنے کے کچھ سماجی رویے تھے جو پختہ ہو گئے۔

وضو کی عادت کے بارے میں بھی کئی ڈاکٹرز نے کہا کہ یہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا ہی ایک طریقہ ہے۔ ناک منہ کو نقاب سے ڈھانپنا بھی جراثیم سے بچنے کا ایک طریقہ ٹھہرا۔
مگر وبا ہمیشہ اجتماعات سے پھیلتی ہے۔ گڈ فرائیڈ ے گزرا، شب برات گزری، آج ایسٹر ہے اور رمضان آنے والا ہے۔ دنیا بھر میں اجتماعی عبادت پر پابندی ہے۔ مذہبی اجتماع کورونا کے پھیلاؤ کا ایک اہم سبب بنے ہیں۔

چاہے وہ نئے برس کے استقبال کے لئے ووہان میں منعقد کی گئی ضیافت ہو، ایران کی زیارتیں ہوں، چرچ کے اجتماع ہوں، تبلیغی جماعت کے اجتماع اور سفر ہوں یا دیگر مذہبی اجتماعات۔ وائرس مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ اسے ایک شخص سے دوسرے شخص میں جا کے خود کو زندہ رکھنا ہوتا ہے اور اپنی نسل بڑھانی ہوتی ہے۔ ہم بھی وائرس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔

ہاں اتنا ضرور جانتے ہیں کہ خدا ستار العیوب اور غفور الرحیم ہے۔ وہ اپنے بندوں کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ اسے اپنی سب مخلوقات عزیز ہیں۔ وہ اپنے حقوق تو معاف کر دے گا مگر حقوق العباد معاف نہیں کرتا۔
آج حقوق العباد کا تقاضا ہے کہ اجتماعی عبادات کی ضد کر کے انتظامیہ کے لیے، اپنے گھر والوں، محلے والوں اور دیگر شہریوں کے لیے مسائل میں اضافہ نہ کریں۔

کورونا وائرس افواہ نہیں، جھوٹ نہیں، یہ ایک وبائی مرض ہے اور اس سے بچنے کے لیے گھر بیٹھیے۔ گھر بیٹھ کر خدا کو یاد کیجیے وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا اور شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ اسے پکاریے اور اسے صدق دل سے پکارنے کے لیے مسجد یا دیگر اجتماعی عبادت گاہوں میں جانے کی موجودہ حالات کے پیش نظر کی وقتی طور پر رخصت ہے

وبا کے ان دنوں میں جہاں بہت سے رویے تبدیل ہو رہے ہیں وہاں خدا کے نام پر فساد جوتنے سے بھی باز آ جائیے تو کیا ہی اچھا ہو گا۔ ہر جمعے انتظامیہ کے لیے ایک نئی آزمائش کھڑی کرنے کی بجائے اگر نماز گھر ہی میں ادا کر لی جائے تو کتنا بہتر ہو۔
خدا اگر مسجد جانے والوں ہی کی سنتا تو مچھلی کے پیٹ میں یونس کی پکار نہ سنتا۔ اجتماعی عبادت کی فضیلت اپنی جگہ لیکن کیا ہماری تنہائی حضرت یونس کی تنہائی سے زیادہ بڑی ہے؟