انڈیا کے ٹرک ڈرائیور کتنی رشوت دیتے ہیں؟

رپورٹ کے مطابق انڈیا میں ٹرک ڈرائیورز ایک سال میں تقریبا 48 ہزار کروڑ روپے کی رشوت دیتے ہیںانڈیا کے ٹرک ڈرائیور عام طور پر رشوت کے طور پر کتنے روپے ادا کرتے ہیں؟ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ رشوت کی رقم سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کروڑ روپے تک پہنچتی ہے۔یونین وزیر برائے ٹرانسپورٹ وی کے سنگھ نے حال ہی میں انڈیا میں ٹرک ڈرائیوروں کے حالات سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انڈیا میں ٹرک ڈرائیور ایک سال میں تقریبا 48 ہزار کروڑ کی رشوت دیتے ہیں

سیو لائف فاؤنڈیشن کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ دہلی این سی آر، ممبئی، چینئی، کولکتہ، بنگلور، جے پور، احمد آباد، گوہاٹی، کانپور اور وجے واڑہ جیسے دس اہم ٹرک ٹرانسپورٹیشن کے مقامات میں 100 سے زیادہ ٹرانسپورٹرز کے 1200 ٹرک ڈرائیوروں، منیجروں اور مالکان کے ساتھ بات پر مبنی ہے۔اس گفتگو کی بنیاد پر تیار کی گئی ایک رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں 83 فیصد ٹرک ڈرائیوروں کو سڑک پر چلتے ہوئے کسی نہ کسی کو رشوت دینا پڑتی ہے۔انڈیا میں ٹرک ڈرائیوروں اور بدعنوانی کے مابین تعلق پر اس سے قبل ایک سنجیدہ مطالعہ تقریبا 15 سال قبل اس وقت سامنے آیا تھا جب سنہ 2005 میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ جاری کی تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق سڑکوں پر چلنے والے ٹرک ڈرائیور ایک سال میں 22 ہزار کروڑ کی رشوت دیتے تھے۔اس رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک تجارتی ٹرک کے ڈرائیور کو ایک سال میں تقریبا 80 ہزار روپے کی رشوت دینا پڑتی ہے۔اس تناظر میں گذشتہ 15 برسوں میں ٹرک ڈرائیوروں کی جانب سے دی جانے والی رشوت دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق ٹریفک اور ہائی وے پولیس ٹرک ڈرائیوروں سے سب سے زیادہ پیسے وصول کرتی ہےلیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹرک ڈرائیوروں کی وجہ سے بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔سیو انڈیا فاؤنڈیشن کے سربراہ پیوش تیواری کہتے ہیں: ’سنہ 2005-06 کے مقابلے میں اب شاہراہوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ٹرکوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رشوت میں اتنا اضافہ ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 15 سال میں ٹرک ڈرائیوروں میں بدعنوانی میں قدرے کمی آئی ہے۔‘

پیوش تیواری کے مطابق سنہ 2006-07 کے دوران ٹرک ڈرائیوروں کو عام طور پر 70 پیسے فی کلومیٹر کی شرح سے رشوت ادا کرنا پڑتی تھی جو کہ سنہ 2020 میں کم ہو کر 53 پیسے فی کلو میٹر ہو چکی ہے۔لیکن بنارس سے لکھنؤ کے درمیان درجنوں ٹرک سنبھالنے والے رمیش کمار کہتے ہیں: ’مجھے نہیں لگتا کہ سڑکوں پر رشوت ستانی میں کمی آئی ہے۔ ٹرک ڈرائیوروں کا کام رشوت کے بغیر نہیں چلتا ہے۔ بہت رشوت دینا پڑتی ہے اور آپ جو اعداد و شمار بتا رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ رقم رشوت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ بہار کے ڈیری آن سون سے جونپور بنارس کا فاصلہ 300 کلومیٹر سے بھی کم ہے لیکن ایک چکر لگانے میں تقریبا چھ ہزار روپے بطور رشوت دینے ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگا لیجیے۔‘ڈیری آن سون سے بنارس کے درمیان زیادہ رشوت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اترپردیش میں کان کنی پر پابندی کے سبب بہار میں ڈیرآن سون سے مٹی اور ریت کی بہت مانگ ہے۔ لیکن مختلف وجوہات کے سبب اس طرح کی مانگ والے راستوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ کچھ ٹرک ڈرائیوروں کے مطابق زیادہ رشوت ایک ریاست سے دوسری ریاست میں جاتے وقت دینا پڑتی ہے۔

رشوت کیوں دینا ہوتی ہے؟دراصل ٹرک ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں ٹرکوں کی رجسٹریشن، فٹنس سرٹیفکیٹ اور پرمٹ وغیرہ کے لیے بھی رشوت دینا ہوتی ہے لیکن اس قسم کی رشوت کو عام طور پر ٹرکوں کے مالکان ادا کرتے ہیں۔ جب ٹرک سڑکوں پر چلنے کی حالت میں ہوتے ہیں تو ڈرائیوروں اور ان کے ساتھیوں کا زیادہ تر سامنا ٹرانسپورٹ آفیسر، ٹریفک/ ہائی وے پولیس، چیک پوسٹ اور انکم ٹیکس آفیسر سے ہوتا ہے۔سٹیٹس آف ٹرک ڈرائیورز ان انڈیا رپورٹ کے مطابق ہر 10 میں سے نو ٹرک ڈرائیوروں کو سڑک پر ٹرانسپورٹ کے افسران اور ٹریفک/ ہائی وے پولیس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انھیں رشوت دینا پڑتی ہے۔ان حکام کے پاس کئی دفعات میں ٹرک ڈرائیوروں کو جرمانہ لگانے کی سہولت ہوتی ہے جس سے بچنے کے لیے ٹرک ڈرائیور پیسے ادا کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔زیادہ تر ٹرک ڈرائیور تعلیم یافتہ نہیں ہوتے ہیں، ان کے کام میں مسلسل سڑکوں پر ٹرک چلانا شامل ہے لہذا وہ حکام سے بحث کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے ہیں۔

جنرل وی کا تجربہاس رپورٹ کو جاری کرتے ہوئے یونین وزیر برائے ٹرانسپورٹ جنرل وی کے سنگھ نے بھی سڑکوں پر رشوت دینے کو ایک منظم مائنڈ سیٹ سے منسلک کرتے ہوئے ایک دلچسپ تجربہ پیش کیا۔اپنے فوجی تجربات کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’فوج میں ہر سال ہم چیک کرتے ہیں کہ کتنی گاڑیاں ایمرجنسی کے لیے تیار ہیں۔ اس کے لیے چیک پوسٹیں بنائی جاتی ہیں اور گزرنے والی گاڑیوں کو چیک کیا جاتا ہے کہ اس میں کتنا سامان لے جایا جا سکتا ہے، اسے کتنی تیزی سے چلایا جاسکتا ہے وغیرہ۔‘پیوش تیواری کے مطابق سنہ 2006-07 کے دوران ٹرک ڈرائیوروں کو عام طور پر 70 پیسے فی کلومیٹر کی شرح سے رشوت ادا کرنا پڑتی تھی جو کہ سنہ 2020 میں کم ہو کر 53 پیسے فی کلو میٹر ہو چکی ہے’جب ایسی جانچ ہوتی ہے تو ٹرک ڈرائیور چیک پوسٹ کے قریب ٹرک کو آہستہ کرتا ہے اور نوٹ ہاتھ میں نکال لیتا ہے۔ اسے فوجی بتاتے ہیں کہ وہ رقم نہیں چاہتے بلکہ انھیں گاڑی کی معلومات کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام اسی طرح قائم ہے۔ یہ اسی وقت بدلے گا جب ٹرک ڈرائیوروں کو تربیت دی جائے گی۔ ان کی صورتحال کو بہتر بنانا چاہیے۔

الیکٹرانک میکانزم کو چیک پوسٹوں پر لگانا چاہیے۔‘جنرل وی کے سنگھ کے مطابق مودی حکومت دیہی علاقوں میں ٹرک ڈرائیوروں کی تعلیم اور تربیت پر توجہ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔کیا رشوت چالان سے بچنے کے لیے ہے؟ریاست بہار میں ٹرک ٹرانسپورٹیشن کا کام کرنے والے نول سنگھ کا کہنا ہے کہ کئی بار بغیر کسی وجہ کے بھی ٹرک ڈرائیوروں کا چالان کاٹ دیا جاتا ہے جس سے بچنے کے لیے رشوت ہی سہی نظر آتی ہے۔’ایک بار اگر ٹرک کسی سرٹیفیکیٹ کی عدم موجودگی میں پکڑا جاتا ہے تو اس پر ہزاروں روپے جرمانہ لگتا ہے، کئی بار ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم چند سو یا ہزار دے کر اپنا کام کرواتے ہیں۔‘رپورٹ کے مطابق ٹریفک اور ہائی وے پولیس ٹرک ڈرائیوروں سے سب سے زیادہ پیسے وصول کرتی ہے۔ تقریبا 40 فیصد کیسز میں یہ لوگ بلاوجہ بھی رشوت وصول کرتے ہیں۔ سیٹ بیلٹ نہ پہنے ہوئے ڈرائیونگ کرنے کے کیس 13 فیصد سے کم ہیں۔عام طور پر یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ٹرک ڈرائیور تیز رفتاری اور اوورلوڈنگ بھی کرتے ہیں۔

سب سے زیادہ ٹرانسپورٹ افسران ٹرک ڈرائیوروں سے رشوت وصول کرتے ہیں اور تقریبا 30 فیصد کیسز میں یہ افسران بغیر کسی وجہ کے رشوت لیتے ہیںلیکن تیز رفتاری کے واقعات گیارہ فیصد سے بھی کم ہیں جبکہ اوور لوڈنگ کے کیسز دس فیصد سے کم ہیں۔ دس فیصد واقعات میں غلط جگہ پارکنگ کرنے کی وجہ سے بھی ڈرائیوروں کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ان کے بعد سب سے زیادہ ٹرانسپورٹ افسران ٹرک ڈرائیوروں سے رشوت وصول کرتے ہیں اور تقریبا 30 فیصد کیسز میں یہ افسران بغیر کسی وجہ کے رشوت لیتے ہیں۔اس کے علاوہ ٹرک ڈرائیوروں کو مقامی سطح پر جبری وصولی کے نام پر بڑے پیمانے پر معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے۔بعض اوقات یہ ہندو مذہب کی مختلف تقاریب کے نام پر بھی وصول کیا جاتا ہے۔ ٹرک ڈرائیوروں میں سے تقریبا 26 فیصد کا کہنا ہے کہ انھیں مقامی مافیا کو رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔اس تحقیق میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ٹرک ڈرائیوروں کو عام طور پر ہر چیک پوسٹ پر رشوت ادا کرنی پڑتی ہے لیکن کچھ ٹرک ڈرائیوروں اور ٹرک مالکان کو اس سے نجات مل جاتی ہے کیونکہ ایک چیک پوسٹ پر رقم ادا کر کے وہ آگے کے لیے ٹوکن حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن ایسے ٹرک ڈرائیوروں کی تعداد صرف 13 فیصد کے قریب ہے جنھیں آگے دکھانے کے لیے پرچی مل جاتی ہے۔بعض ٹرک ڈرائیور ایک چیک پوسٹ پر رقم ادا کر کے آگے کے لیے ٹوکن حاصل کر لیتے ہیںوزارت ٹرانسپورٹ کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ایک اندازے کے مطابق 31 مارچ سنہ 2019 تک انڈیا میں رجسٹرڈ ٹرکوں کی تعداد 59,03,370 ہے اور ان کے ڈرائیور 222 روپے فی دن کی اوسط سے سال بھر میں تقریبا 48 ہزار کروڑ روپے رشوت دیتے ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ تصویر بھی سامنے آئی ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ٹیکس وصولی میں بدعنوانی میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ صرف دو فیصد ٹرکوں کے مطابق انھیں ٹیکس حکام کو رشوت دینا پڑی ہے۔اس کے علاوہ پیوش تیواری ایک اور تبدیلی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات اور موبائل فون سے ویڈیو اور تصاویر لینے کی سہولت کی وجہ سے بھی رشوت کے معاملات میں کمی واقع ہوئی ہے کیوںکہ کوئی بھی آن کیمرہ رشوت لیتے ہوئے ریکارڈ نہیں ہونا چاہتا ہے۔پیوش تیواری کا خیال ہے کہ اگر حکومت ٹرک ڈرائیوروں کو مناسب تربیت اور سماجی تحفظ فراہم کرے تو سڑکوں پر رشوت کی اس کھلی مارکیٹ میں بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔