دلی انتخابات: بی جے پی کی شکست


دلی کی 70 رکنی اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات کے حتمی نتائج کے مطابق عام آدمی پارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائیٹ کے مطابق عام آدمی پارٹی نے 62 نشستیں جیتی ہیں جبکہ بھارتیہ جتنا پارٹی کے امیدواروں کو صرف آٹھ نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ملک کی بڑی سیاسی جماعت کانگرس ایک بھی نشست جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق عام آدمی پارٹی نے

53.57 فیصد ووٹ حاصل کیے، بی جے پی کو 38 اعشاریہ 51 فیصد ملے جبکہ کانگریس پارٹی کے حصے میں پانچ فیصد سے بھی کم ووٹ آئے۔وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں اپنی جماعت کی بڑی کامیابی کے امکانات واضح ہونے کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دلی کے لوگوں نے نئی سیاست کی بنیاد رکھی ہے۔ انہوں کہا کہ یہ نئی سیاست ‘کام کی سیاست’ ہے۔بی جے پی نے دلی کے اسمبلی انتخابات جیتنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی تھی۔ یہاں انتخابی مہم کی قیادت خود وزیر داخلہ امت شاہ نے کی اور انھوں نے تقریباً 40 ریلیوں اور جلسوں سے خطاب کیا تھا۔وزیر اعظم مودی نے بھی کئی ریلیاں کیں۔ مرکزی وزرا، کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اوردرجنوں رکن پارلیمان نے انتخابی مہم میں پرزورحصہ لیا۔ اس کے باوجود بی جے پی کو شکست فاش ہوئی۔

آخر کیوں؟نفرت اںگیز اور منفی انتخابی مہمبی جے پی نے انتخابی مہم میں شہریت کے متنازع قانون ‘سی اے اے’ کے خلاف ہونے والے مظاہروں بالخصوص شاہین باغ کے احتجاج کو بنیاد بنا کر نفرت اںگیز اور منفی مہم چلائی۔شاہین باغ میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو بی جے پی نے ملک دشمنی اور غداری سے تعبیر کیا۔اس مہم کا تقریباً سارا بیان شاہین باغ کے ان کے اپنے تصور پر محیط تھا۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ اگر عام آدمی پارٹی جیت گئی تو پوری دلی شاہین باغ بن جائے گی۔بی جے پی کے ایک رہنما نے یہ تک کہہ دیا کہ شاہین باغ ‘خودکش حملہ آوروں کا ‘بریڈنگ گراؤنڈ’ ہے۔

دلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے فتح کے بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” آئی لو یو دہلی”بی جے پی نے عوام کو بار بار یہ بھی یاد دلایا کہ شاہین باغ کے سبب پوری دلی متاثر ہو رہی ہے جبکہ عام آدمی پر شاہین باغ کے واقعات کا کوئی اثر نہیں پڑ رہا تھا۔بی جے پی کی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف پہلی بار اس قدر کھل کر نفرت کا اظہار کیا گیا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا حالانکہ اترپردیش کے عام انتخابات اور اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کے خلاف نعرے سنے گئے لیکن اتنے بڑے رہنماؤں کے منھ سے نہیں جنتا دلی میں۔بی جے پی بظاہر صرف نفرت کی بنیاد پر الیکشن جیتنا چاہتی تھی۔ یہ حکمت عملی مودی اور امت شاہ گجرات میں استعمال کرتے رہے ہیں۔

اس مہم میں جن الفاظ کی گونج بار بار سنائی دی وہ ‘غدار، دہشت گرد، شاہین باغ، پاکستان، اور مسلمان تھے لیکن نتائج سے لگ رہا ہے کہ دلی کے عوام نے سیاست کا یہ گجرات ماڈل قبول نہیں کیا۔اس مہم کے دوران کیجریوال کو بھی ذاتی طور پر ہدف بنایا گیا۔ انھیں ‘غداروں’ اور ’دہشت گردوں‘ کا حامی کہا گیا۔ ایک سینیئر رہنما نے خود کیجریوال کو ہی دہشت گرد قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ ان کے پاس اس بیان کو ثابت کرنے کے لیے پختہ ثبوت موجود ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج اس بات کے گواہ ہیں کہ دلی کے عوام نے بی جے پی کی نفرت انگیز مہم کو مسترد کر دیا ہے۔کیجریوال کا مثبت رویہ اور کام:اروند کیجریوال نے انتخابات سے پہلے ہی سیاسی تنازعات میں پڑنے سے گریز کرنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے بی جے پی کے سیاسی حملوں اور شاہین باغ کے جال میں پھنسنے سے بچنے کے لیے مثبت رویہ اختیار کیا۔یہی نہیں انھوں نے تنازعات سے بچنے کے لیے شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی اور جے این یو جیسے مقامات کا دورہ کرنے سے بھی شعوری طور پر گریز کیا۔کیجریوال کی حکومت نے سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں، محلہ کلینکوں اور گورننس کے شعبے میں اچھا کام کیا ہے جس کا اعتراف کیجریوال کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔ خاص طور سے تعلیم کے شعبے میں وہ سب سے کامیاب وزیراعلی ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ کیجریوال نے دلی کے سرکاری سکولوں کی تصویر بدل کر رکھ دی ہے۔دلی کے بیشتر عوام حکومت کی کارکردگی سے خوش دکھائی دیتے ہیں اور انھوں نے بی جے پی کے مستقبل کے وعدوں کے بجائے موجودہ حقیقتوں کو فوقیت دی ہے۔

کچی بستیوں کے باسیوں کی حمایت:عام آدمی پارٹی کی سب سے بڑی حمایت دلی کی کچی بستیوں سے آتی ہے۔ ان بستیوں میں تقریباً 50 لاکھ باشندے رہتے ہیں۔ ان کی حمایت جیتنے کے لیے انتخابات سے قبل مودی حکومت نے کچی بستیوں کو پکی بستیوں میں بدلنے کا قانون پاس کیا لیکن پھر بھی وہ ان باشندوں کا دل نہ جیت سکی۔