ٹرمپ کا دورۂ تاج محل علاقے میں لنگور بھی تعینات کیے جا رہے ہیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو روزہ دورے پر انڈیا سوموار کو انڈیا پہنچ رہے ہیں اور اس دوران وہ دہلی سے دو گھنٹے کی مسافت پر موجود محبت کی یادگار اور مغل فن تعمیر کا نمونہ تاج محل بھی دیکھنے جائیں گے۔ان کی آمد سے قبل آگرہ میں کئی دنوں سے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ انسان تو انسان وہاں جانوروں سے بھی حفاظت کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے کیونکہ تاج محل کے آس پاس اکثر بندر سیاحوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔بندروں کو وہاں سے بھگانے کے لیے آگرہ میں لنگوروں کو تعینات کیا جارہا ہے۔

پولیس انتظامیہ نے اس کے لیے محکمہ جنگلات کے عہدیداروں سے مدد لی ہے۔تاہم کسی بھی عہدیدار نے اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی کہ لنگوروں کو کہاں تعینات کیا گیا ہے اور وہ کیسے کام کریں گے۔تاج محل کے آس پاس چوپایوں اور کتوں کی بھی کثرت ہے۔ انھیں وہاں سے ہٹانا انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج ہے لیکن فی الحال اس کا حل تلاش کر لیا گیا ہے۔ایک افسر نے یہ کہتے ہوئے راحت کا سانس لیا کہ ‘اتوار کے روز سے نہ تو کوئی مویشی تاج کی طرف آیا تھا اور نہ ہی کوئی کتا ادھر بھٹکا ہے۔‘صدر ٹرمپ کے آگرے کے دورے کو کامیاب بنانے کے لیے کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے جہاں راستوں کو پھولوں کے گملوں سے سجایا گیا ہے وہیں دریائے جمنا میں کئی دریاؤں کا پانی موڑا گیا ہے تاکہ تاج سے دریا کا دلکش منظر نظر آئے، پانی صاف نظر آئے اور بدبو نہ ہو

تاج محل کے مشرقی دروازے سے لے کر دریائے جمنا کی طرف صاف صفائی کا خاص خیال رکھا گیا ہے لیکن بدبو سے چھٹکارے کا دعوی بے معنی نظر آتا ہے۔مقامی رہائشی یشپال سنگھ کا کہنا ہے کہ ‘دریا میں پانی ڈالا گیا تھا، لیکن جمنا میں صاف پانی نظر نہیں آرہا ہے۔ جمنا کے کنارے پانی کا رنگ اتنا ہی سیاہ ہے جتنا ایک ہفتہ پہلے تھا۔’ضلع آگرہ میں تعینات پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار کسی بھی طرح ٹرمپ کے پروگرام کو بحسن و خوبی اختتام پزیر ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک جانب اگر آگرہ کے باشندے خوش ہیں کہ امریکی صدر کے شہر آنے سے شہر میں کچھ صاف صفائی ہو رہی ہے تو دوسری طرف سیاحوں میں مایوسی ہے کہ وہ سوموار کو تاج محل نہیں دیکھ پائیں گے۔نہ صرف تاج کے گرد اور ٹرمپ کے راستے پر بلکہ پورے آگرہ شہر میں بھی سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں

ٹرمپ شام تقریبا پانچ بجے آگرہ پہنچيں گے اور پھر چھ بجے کے بعد وہ تاج محل کی سیر کو جائیں گے۔آگرہ کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ ببلو کمار نے بی بی سی کو بتایا: ‘امریکی صدر کے دورے کے پیش نظر اس علاقے کو دس زون میں تقسیم کیا گیا ہے اور تاج محل کے آس پاس کے علاقے میں پولیس فورس کو بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا ہے جس میں 55 ڈپٹی ایس پی، 125 انسپکٹر، 350 سب انسپکٹر، 3000 کانسٹیبل، 10 کمپنی پی اے سی اور ایک کمپنی ریزرو پولیس تعینات ہوگی۔’اس کے علاوہ پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد بھی سادہ وردی میں تعینات ہو گی جو لوگوں پر نگاہ رکھیں گے۔

تاج محل کے آس پاس کے علاقوں میں شاید ہی کوئی گلی یا سڑک ایسی ہے جہاں سکیورٹی اہلکار تعینات نہ ہوں۔اس کے علاوہ وی آئی پی روڈ اور تاج محل کو جانے والی دیگر سڑکوں کے پہلو میں بھی ناکہ بندی کی گئی ہے تاکہ کوئی بھی سڑک پر نہ آ سکے۔وی آئی پی روڈ پر پیٹھے (مربے) کی دکان کے مالک روی شنکر کا کہنا ہے کہ ‘ہم پچھلے پندرہ دن سے ٹرمپ کے استقبال کی وجہ سے مندی کا سامنا کر رہے ہیں۔ 24 فروری کو دکانیں بند کرنے کو کہا گیا تھا لیکن اس سے پہلے ہی دکانوں کے بورڈ ہٹوا دیے گئے ہیں۔ یہ دیا گیا ہے۔ شیشے کے باہر اخبار چسپاں کرنے کے لیے کہا گیا ہے تاکہ باہر سے یہ پتا نہ چلے کہ ہم کیا فروخت کر رہے ہیں۔’شہر کے پوش علاقے مال روڈ پر دیر شام تک سڑکیں دھوئی جا رہی تھیں۔ چوراہوں پر انڈیا اور امریکہ کے پرچم لگائے گئے ہیں اور ہر چوراہے پر درجن بھر پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ‘ڈیوٹی پر موجود ہر سکیورٹی اہلکار کو پاسز دیئے گئے ہیں اور یہ پاس صرف اس مخصوص جگہ کے لیے ہے جہاں ان کی ڈیوٹی ہے۔

پولیس والے بھی اپنی مرضی سے کہیں آ جا نہیں سکتے۔پولیس آفیسر (تاج سکیورٹی) محسن خان نے بی بی سی کو بتایا: ‘یہاں بہت ساری فورس باہر سے آئی ہیں۔ آس پاس کے لوگوں کو یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ انھیں کس طرح رہنا ہے۔ ہر ہوٹل، ریستوراں، گھر گھر پولیس کی رسائی ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ کسی بھی طرح سے سیاحوں کو تکلیف نہ ہو۔ 24

فروری کو صبح کے بارہ بجے کے بعد تاج محل کمپلیکس خالی کرا لیا جائے گا اور اس کے بعد وہاں کوئی سیاح نہیں جا سکے گا۔تاج محل کے قریب واقع آگرہ کے کھیریا ایئرپورٹ سے لے کر ہوٹل امر ولاس پیلس تک مجموعی طور پر 21 سینٹرز بنائے گئے ہیں جہاں مختلف مقامات پر تقریبا تین ہزار فنکار صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے استقبال میں اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔اس دوران سارے راستے پر خوش آمدید کرنے کے لیے صرف وہی لوگ موجود ہوں گے جنھیں مدعو کیا گیا ہے۔