کورونا وائرس: سندھ میں 150 مریض، پاکستان میں کل تعداد 180 سے بڑھ گئی

پاکستان میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ میں کووڈ-19 کے نئے مریض سامنے آنے کے بعد ملک میں اس وائرس کے مریضوں کی تعداد 183 تک پہنچ گئی ہے۔سندھ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق صرف اسی صوبے میں اب تک 150 افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی حکام نے 15 افراد میں اس وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔اس کے علاوہ پیر تک کے وفاقی اعدادوشمار کے مطابق سندھ اور خیبر پختونخوا کے علاوہ بلوچستان میں 10، اسلام آباد میں چار، گلگت بلتستان میں تین اور لاہور میں ایک مریض موجود ہے۔

قومی ادارہ برائے صحت کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں پیر تک صرف 833 افراد کے ہی کورونا ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔پاکستان میں اس وقت صوبہ سندھ اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے جہاں اب تک 150 افراد میں کووڈ-19 وائرس کی تصدیق کی جا چکی ہے۔صوبہ سندھ کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 148 افراد زیرِ علاج ہیں جبکہ دو مکمل صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔حکام کے مطابق سندھ میں سب سے متاثرہ شہر اب سکھر بن چکا ہے جہاں 119 افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ یہ تمام افراد ایران سے پاکستان واپس آئے ہیں۔اس کے علاوہ مریضوں میں سے 30 کا تعلق کراچی سے ہے جبکہ ایک مریض حیدرآباد میں سامنے آیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پیر کو سکھر میں موجود مزید ایسے افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جو ایران سے پاکستان آمد کے بعد تفتان میں بنائے گئے قرنطینہ میں وقت گزارنے کے بعد اپنے آبائی علاقوں کو بھیجے گئے تھے۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ اتوار کو تفتان سے آنے والے 50 افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی جبکہ صوبائی محکمۂ صحت کی ترجمان کے مطابق پیر کو مزید 26 افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔کراچی کے متاثرین کی معلومات فراہم کرتے ہوئے مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ صوبائی دارالحکومت اور حیدرآباد میں جن 27 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ان میں سے آٹھ شام، تین دبئی، تین ایران، پانچ سعودی عرب، ایک قطر اور ایک کوئٹہ سے کراچی آیا تھا جبکہ پانچ کیس مقامی منتقلی کے ہیں۔

مراد علی شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے پاس عوامی سطح پر کورونا کے ٹیسٹ کرنے کی استعداد نہیں ہے اور اسی لیے صرف اب تک سندھ میں 394 افراد کے ہی ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں، جس میں سفری ریکارڈ کے حامل یا متاثرہ افراد سے براہ راست رابطے میں آنے والے افراد کو ترجیح دی گئی ہے۔ان کے مطابق صوبائی حکومت نے دس ہزار کٹس منگوائی تھیں لیکن مسئلہ کٹس کا نہیں بلکہ ٹیسٹنگ سہولیات کا ہے۔ ‘ہم یومیہ دو سو ٹیسٹ ہی کر سکتے ہیں۔ پی سی آر مشین ایک وقت میں 45 ٹیسٹ کر سکتی ہے اور اس پورے عمل میں چھ سے آٹھ گھنٹے لگتے ہیں’۔

مراد علی شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں ٹیسٹ کرنے والے تربیت یافتہ عملے کی کمی کا بھی سامنا ہے۔سندھ میں کورونا سے بچاؤ کے اقدامات کے تحت صوبے کے تمام نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے بھر میں شادی ہال، سینما گھر تین ہفتوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ تمام سماجی، مذہبی، اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔اسی طرح مزارات بھی آئندہ تین ہفتوں کے لیے زائرین کے لیے بند ہوں گے راہم رسموں کی ادائیگی، دھمال اور شاہ لطیف کے مزار پر گائیکی کا سلسلہ جاری رہے گا۔صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیرِ صحت تیمور جھگڑا نے کہا ہے کہ صوبے میں تفتان سے آنے والے جن 19 افراد کے ٹیسٹ کیے گئے تھے ان میں سے 15 میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے۔

ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ خیبر پختونخوا میں کورونا کے مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ان افراد کو ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم قرنطینہ مرکز میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔اس سے قبل صوبائی وزیرِ صحت نے صوبے میں ایک شخص کی کورونا سے ہلاکت کی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذکورہ مریض کے کورونا ٹیسٹ کے نتائج تاحال موصول نہیں ہوئے ہیں۔مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مذکورہ شخص کا تعلق ہنگو سے تھا اور وہ چند دن قبل قطر سے واپس آیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس 31 سالہ شخص کو اتوار کو ہی ہسپتال لایا گیا تھا۔خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیشِ نظر 15 روز کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی اور عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے،ہاسٹل بند کرنے اور جیلوں میں قیدیوں سے ملاقاتیں معطل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

صوبہ بلوچستان میں جہاں اب تک سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 11 افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے وہیں صوبے کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں قائم کیے گئے قرنطینہ پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے پیر کے روز بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت تفتان کے مقام پر 2900 زائرین کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے جبکہ 500 افراد کو کوئٹہ میں موجود قرنطینہ مراکز میں منتقل کیا گیا ہے۔تفتان کے قرنطینہ میں رکھے گئے افراد کو جب ان کے آبائی علاقوں میں بھیجا گیا ہے تو وہاں کیے گئے ٹیسٹ میں ان میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔

پیر کو وزیرِاعلٰی سندھ نے کہا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ تفتان میں قرنطینہ میں 14 روز گزارنے کے بعد سندھ بھیجے جانے والے تمام افراد کو دوبارہ قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے کیونکہ تفتان میں قرنطینہ کی سہولیات ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تفتان میں موجود افراد میں سے سب سے پہلے 853 افراد کا تعلق سندھ سے بتایا گی تھا اور کہا گیا تھا کہ ان کا ٹیسٹ کیا گیا ہے اور قرنطینہ میں بھی رکھا گیا ہے جس کے بعد وہاں سے سکھر پہنچنے والے افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق صوبائی حکومت کے لیے تشویش ناک تھی۔

سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ تفتان سے آئندہ ایک، دو روز میں مزید 664 افراد سندھ میں لائے جائیں گے جن کے لیے یہی طریقۂ کار اختیار کیا جائے۔حکومت بلوچستان نے عوام کو موبائل فون پر کورونا وائرس سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ایک اعلامیے کے مطابق روزانہ تین لاکھ سے زیادہ لوگوں کو موبائل پر پیغامات کے ذریعے کورونا وائرس کے اثرات اور احتیاطی تدابیر سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے گی۔افغانستان سے متصل بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے سرحدی شہر چمن میں لوگوں کی سکریننگ کے لیے اقدامات کے علاوہ چمن میں محدود پیمانے پر قرنطینہ مرکز قائم کرنے کے علاوہ آئسولیشن سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے جبکہ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے وہاں 1500 افراد کے لیے قرنطینہ قائم کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تاحال اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک ہی ہے۔اس 54 سالہ مریض کا تعلق لاہور سے بتایا گیا ہے اور یہ 10 مارچ کو ہی برطانیہ سے واپس لوٹا تھا۔حکام کے مطابق مریض سے براہ راست رابطے میں آنے والوں کو گھر میں ہی آئسولیشن میں رکھا جا رہا ہے اور اس دورانیے کے دوران تمام افراد کی نگرانی کی جائے گی اور علامات ظاہر ہونے پر دوبارہ ٹیسٹ کروائے جائیں گے۔صوبائی حکومت نے جمعرات کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے صوبے بھر میں طبی ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ حکام کے مطابق اب تک تین ہزار چینی باشندوں جبکہ ایران سے آنے والے چار ہزار زائرین کی سکریننگ کی گئی ہے۔

حکام کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں درازندہ کے مقام پر ایک قرنطینہ مرکز بھی قائم کیا گیا ہے جہاں تفتان میں قرنطینہ میں مقررہ مدت گزارنے کے بعد پنجاب میں داخل ہونے والے 780 زائرین کو دوبارہ داخل کیا گیا ہے جہاں ان کے کورونا ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے ملک بھر میں تمام تعلیمی اداروں کو بند، فوجی پریڈ کو منسوخ، پاکستان کی سرحدوں کو پندرہ روز تک مکمل بند اور بین الاقوامی پروازوں کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پاکستان نے پیر کو افغانستان، ایران اور انڈیا کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔ پاک افغان سرحد طور بارڈر کو پیر اور اتوار کی درمیانی شب ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا۔

حکام کے مطابق روزانہ سات ہزار کے لگ بھگ افراد یہ سرحد عبور کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا بڑا راستہ بھی یہی ہے۔شمالی وزیرستان کے ساتھ افغانستان کی سرحد غلام خان اتوار چھ بجے بند کر دی گئی تھی۔ غلام خان سرحد افغانستان کے علاقے خوست سے ملتی ہے اور خیبر پختونخوا میں افغانستان کے ساتھ ملنے والی یہ دوسری بڑی سرحد ہے۔حکام کے مطابق جنوبی وزیرستان کے ساتھ افغانستان کی سرحد انگور اڈا کو وزارت داخلہ کے نوٹیفیکیشن کے فوری بعد سنیچر کے روز ہی بند کر دیا گیا تھا۔یہ سرحد افغانستان کے ساتھ ملنے والے ان چند راستوں میں سے ایک تھی جہاں سے آمدورفت آسان تھی لیکن کچھ عرصہ قبل اس سرحد پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی، جس کے بعد یہ سرحد دن کے وقت کھلی جبکہ رات کو بند کر دی جاتی تھی۔ اس سرحد سے اب لوگوں کی آمدورفت کافی حد تک محدود ہو چکی تھی۔

ضلع کرم کے ساتھ افغانستان کی سرحد خرلاچی کو پیر سے ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کیا ہے۔ ضلع کرم کی انتظامیہ کے مطابق یہ سرحد 30 مارچ تک بند رہے گی جس کے بعد اس بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اس سرحد سے کوئی زیادہ آمدورفت ریکارڈ نہیں کی جاتی تاہم دونوں جانب کے مقامی قبائل اس سرحد کو اپنی ضروریات کے تحت استعمال کرتے ہیں۔چترال اور گلگت بلتستان کے ساتھ ملنے والی شندور سرحد اس وقت توجہ کی مرکز ہے۔ چترال میں ڈاکٹروں نے حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ شندور کے مقام پر راستہ کھلنے کی وجہ سے لوگ اس طرف اس موسم میں آتے ہیں اور ان کی سکریننگ ضروری ہے۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان واہگہ کے مقام پر آمدورفت معطل کر دی گئی ہے۔ اس سرحد کی بندش کا فیصلہ انڈیا کی حکومت نے کیا ہے۔ یہ سرحد 15 مارچ سے بند کی گئی ہے۔ اسی طرح کرتار پور راہداری کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

پاکستان نے کرتارپور راہداری پاکستانیوں کے لیے بند جبکہ انڈیا سے آنے والے افراد کے لیے کھلے رہنے کے لیے کہا تھا لیکن انڈیا کی جانب سے یہ سرحد بھی بند کر دی گئی ہے۔بلوچستان میں پاکستان کی سرحد ایک جانب ایران سے تو دوسری طرف افغانستان سے ملتی ہے، جس میں مختلف مقامات پر آمدورفت ہوتی ہے۔ایران میں کورونا کی وبا پھیلنے اور افغانستان میں کیسز رپورٹ ہونے کے بعد بلوچستان سے دونوں ممالک کے ساتھ سرحدی علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے علاوہ دونوں ممالک کے ساتھ سرحدوں کو بند کیا گیا ہے۔

افغانستان کے ساتھ جو سرحدی اضلاع واقع ہیں ان میں ژوب ، قلعہ سیف اللہ، پیشن ، قلعہ عبد اللہ ، نوشکی اور چاغی شامل ہیں جبکہ ایران کے ساتھ چاغی کے علاوہ واشک ، پنجگور ، کیچ اور گوادر کے اضلاع کی سرحدیں لگتی ہیں ۔