ڈاکٹر اسامہ کو سلام اپنے لوگوں کو بچانا چاہتے تھے

0323202024

گلگت بلستان میں کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کا علاج کرنے والے نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض خود اس وائرس کا شکار ہو کر انتقال کر گئے ہیں۔گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فرق نے ڈاکٹر اسامہ کی موت کی تصدیق کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ وہ دور ہے جس میں بھائی بھائی سے بھاگ رہا ہے۔ وائرس کا اتنا خوف ہے کہ باپ بیٹے کا نہیں رہا اور بیٹا باپ کا نہیں رہا۔ اس صورتحال میں ڈاکٹر اسامہ ریاض اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر مریضوں کو علاج معالجہ فراہم کرتے رہے تھے۔ ڈاکٹر اسامہ اصل ہیرؤ ہیں۔ یہ اس قابل ہیں کہ ان کی قدر دانی کی جائے۔ ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں۔‘

ڈاکٹر اسامہ ریاض، تفتان سے گلگت بلتستان آنے والے زائرین کے پڑی بنگلہ کے مقام پر قائم کردہ قرنطینہ مرکز میں اس وائرس سے متاثر ہونے سے قبل خدمات انجام دے رہے تھے۔

گلگت بلتستان کے وزیر قانون اور کورونا کے لیے فوکل پرسن محمد اورنگ زیب نے بی بی سی کو بتایا کہ جب تفتان سے متاثرین نے آنا شروع کیا تو اس وقت گلگت بلتستان حکومت نے کئی قرنطینہ مرکز قائم کیے تھے۔ جن میں سے ایک میں نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض بھی فرائض انجام دے رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اسامہ ریاض قرنطینہ کیمپ میں کئی کئی گھنٹے تک مریضوں کا چیک اپ کرتے رہے۔ یہ اپنے فرائض کے اوقات سے زیادہ دیر تک مریضوں کا معائنہ کرتے اور تھکاوٹ سے نڈھال ہونے کے باوجود کام جاری رکھتے تھے۔ جمعہ کی رات گھر آرام کرنے گئے تو صبح اپنے مقررہ وقت پر نہیں اٹھے تو گھر والوں نے کمرے میں جا کر دیکھا تو انھیں بے ہوش پایا تھا۔‘

محمد اورنگ زیب کے مطابق ڈاکٹر اسامہ ریاض کو ہسپتال پہنچایا گیا تو ان کے دماغ اور گردوں میں شدید طبی مسائل پائے گئے جبکہ ٹیسٹ میں کورونا بھی مثبت آیا تھا۔ ان کے علاج کے لیے ایک میڈیکل بورڈ ترتیب دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر اسامہ ریاض کے کزن اور نیشنل بینک گلگت میں مینجر شاہ فیصل کے مطابق ڈاکٹر اسامہ ریاض چلاس کے رہائشی تھے۔ ان کے والد محمد ریاض لوکل گورنمنٹ میں ڈپٹی سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔

انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم چلاس ہی سے حاصل کی جبکہ اس کے بعد گلگت پبلک سکول سے امتیازی نمبروں سے انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد سال 2013/14 میں بہاولپور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ بہاولپور ہی سے ہاوس جاب مکمل کرنے بعد گلگت بلستان محکمہ صحت سے منسلک ہو گئے تھے۔

شاہ فیصل کے مطابق ’بیس فروری کو ڈاکٹر اسامہ ریاض نے پہلی ہی مرتبہ میں ایف ایس سی پی پارٹ ون کلیئر کر لیا تھا۔ وہ بہت ذھین تھا، اپنی پڑھائی اور پیشے سے انتہائی مخلص تھا۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس کا خیال تھا کہ وہ ایف ایس سی پی کرنے کے بعد امریکہ جائے گا جہاں پر کچھ کورسز کرنے کے بعد واپس گلگت بلتستان آکر اپنے ہی لوگوں کی خدمات انجام دے گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اسامہ تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ سے گلگت بلتستان میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ ’جب گھر والوں نے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو بے ہوشی کی حالت میں پایا تو سب سے پہلے ان کو سی ایم ایچ گلگت پہنچایا گیا۔ جہاں پر ان کو فی الفور وینٹیلیڑ پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ان کو گلگت ہسپتال منتقل کیا گیا۔ مگر گلگت ہسپتال میں نیورو سرجن دستیاب نہیں تھے۔ وہاں پر سی ٹی سکین اور ایم آئی آر مشین دو ماہ سے خراب پڑی تھی۔ ہم لوگوں نے بار بار گزارش کی، سب سے کہا کہ کسی بھی صورت میں ان کو اسلام آباد ایئر لفٹ کیا جائے۔ نیورو سرجن کو بلایا جائے، مگر افسوس کہ یہ ساری سہولتیں ان کو نہیں دی گئیں تھیں۔‘

گلگت بلتستان کے محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اسامہ ریاض کو مکمل سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ ہر قسم کے ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ کوئی غفلت نہیں برتی گئی۔
شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ ’ہمارے خاندان میں اور بھی ڈاکٹر موجود ہیں جب کورونا کی صورتحال پیدا ہوئی تو میں نے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو فون کیا اور کہا کہ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ینگ ڈاکٹرز کو فرنٹ لائن پر لڑنا پڑے گا آپ کے کیا ارادے ہیں تو انھوں نے مجھے جواب دیا تھا کہ میں تو پوری طرح تیار ہوں اور اپنا فرض اچھے سے ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جب تفتان سے زائرین کی آمد شروع ہوئی تو اس کے بعد میں نے ایک دو مرتبہ ڈاکٹر اسامہ کو فون کر کے خیریت معلوم کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے اس پیغام کے ساتھ فون کاٹ دیا کہ میں مصروف ہوں فارغ ہو کر فون کرتا ہوں۔‘

ڈاکٹر اسامہ ریاض کے ایک اور کزن جنید اکبر جو کہ گلگت بلتستان میں سرکاری ملازمت کرتے ہیں نے بتایا کہ ’جب ایران سے زائرین کی آمد شروع ہوئی تو اس وقت ڈاکٹر اسامہ ریاض اپنے ایف ایس سی پارٹ ٹو کے داخلے کے سلسلے میں اسلام آباد میں تھے۔ جب انھیں پتا چلا کہ گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کے لیے قرنطینہ مرکز قائم کیے جا رہے ہیں تو انھوں نے فوراً واپس آ کر کیمپ کا چارج سنبھال لیا تھا۔

جنید اکبر نے بتایا کہ ’ان کی بیماری سے تین روز قبل میری ان سے بات ہوئی تھی تو اس وقت ڈاکٹر اسامہ ریاض بہت زیادہ پریشان تھے کہتے تھے کہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ان زائرین کو بچا لیں یہ نہ ہو کہ یہ مرض پھیل جائے تو پھر بہت ہی زیادہ مشکلات ہوجائیں گیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’ڈاکٹر اسامہ ریاض نے اپنی ایک ٹیم بنا لی تھی۔ ان کے پاس کوئی زیادہ حفاظتی سہولتیں بھی نہیں تھیں مگر پھر بھی دن رات کام کرتے تھے۔‘جنید اکبر کے مطابق ڈاکٹر اسامہ کہتے تھے ’میں نے تو اپنا فرض ہر صورت میں اد اکرنا ہے چاہے مجھے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔‘جنید اکبر کا کہنا تھا کہ وہ بہت پر عزم تھے، اور اس مرض کے خلاف انتہائی حوصلے سے لڑ رہے تھے۔