یوم پاکستان ملی عقیدت اور انتہائی سادگی کے ساتھ منایا جارہا ہے 

اسلام آباد: کرونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر یوم پاکستان آج انتہائی سادگی کے ساتھ منایا جارہا ہے۔
حکومت نے عوام کو کرونا سے محفوظ رکھنے کے لیے 23 مارچ کی مناسبت سے ہونے والی پریڈ سمیت ایوانِ صدر ، گورنر ہاؤسز میں ہونے والی تمام تقاریب کو ملتوی کردیا۔ کابینہ ڈویژن کے حکام کا کہنا ہے کہ کرونا کی صورت حال بہتر ہوتے ہی یوم پاکستان کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ہر سال 23 مارچ کے دن کو ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے، دن کے آغاز پر پاک فوج کی جانب سے 21 ، 21 توپوں کی سلامی اور روایتی پریڈ گراؤنڈ میں تینوں ملسح افواج کے دستے مارچ کرتے جبکہ فضائیہ کے شاہین اپنی مہارت دکھاتے ہیں اور ملکی سلامتی یکجہتی کے لیے مساجد میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔

“یوم پاکستان” پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے ۔ اس دن قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
23 مارچ کی اہمیت اج کے دن “23 مارچ” کوپورے پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے اور اس دن کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ 23 مارچ 1956 کو پاکستان کے پہلے آئین کو اپنایا گیا جس میں مملکتِ پاکستان کو دنیا کا پہلااسلامی جمہوری ملک قراردیا گیا۔

قراردادِ پاکستانمارچ 1940 میں لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ (22 تا 24مارچ)سالانہ اجلاس کے اختتام پریہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جداگانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی تھی۔

قائداعظم محمد علی جناح نے 22 مارچ کو ہونے والے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پہلی بار کہا کہ’’ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے‘‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پورہوگا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ دونوں قومیتوں کی علیحدہ مملکتیں ہوں‘‘۔

دوسرے دن انہی خطوط پر23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق المعروف شیرِ بنگال نے قراردادِ لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابلِ عمل ہوگااورنہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔

شیرِ بنگال مولوی عبدالحققرارداد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کرکے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اورحاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔

مولوی فضل الحق کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنماچوہدری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد (خیبرپختونخواہ) سے سرداراورنگ زیب، سندھ سے سرعبداللہ ہارون اوربلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔قراردادِ پاکستان24مارچ کو ہونے والے اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔

اپریل سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کرلیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔

قرارداد پاکستان کے مصنفقراردادِ پاکستان کے مصنف اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب سرسکندر حیات خان تھے جو کہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔ مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل آپ یونیسٹ پارٹی کے سربراہ تھے۔