کورونا وائرس: ہم کتنا مقابلہ کر سکتے ہیں؟

031520204

اٹلی نے سخت اقدامات کرتے ہوئے پورے ملک کو لاک ڈاؤن کر دیا ہےکورونا وائرس کو ایک عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔لیکن ایک نیا وائرس، جو صرف کچھ ماہ قبل رونما ہوا، سے نمٹنے کے لیے بہترین حکمت عملی کیا ہے؟اس حوالے سے چین کے کچھ اقدامات سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چین کے صوبے ہوبائی سے اس وبا کا آغاز ہوا تھا لیکن اب وہاں حالات کچھ حد تک قابو میں لگ رہے ہیں۔چین اپنے شہریوں کی زندگیوں پر گہری نظر رکھتا ہے اور اس نے اپنے وسائل تیزی سے استعمال کیے ہیں۔

کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے 10 روز میں تعمیر ہونے والا ہسپتال بھی قابلِ ذکر ہے۔چین میں ریاستی کنٹرول زیادہ ہے اور یہ دیگر ملکوں سے مختلف ہے۔ تو کیا باقی دنیا چین کی حکمت عملی کی پیروی کر سکتی ہے؟کیا مشکل وقت گزر گیا؟10 مارچ کو صدر شی جن پنگ نے چین کے اس علاقے کا دورہ کیا جو کورونا وائرس کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ خیال ہے کہ اس دورے سے چین کے سب سے طاقتور شخص نے یہ نشاندہی کی ہے کہ بد ترین قومی ایمرجنسی ختم ہو چکی ہے۔وبا کے آغاز سے چینی حکومت نے لوگوں کی صحت سے متعلق بے مثال اقدامات کیے۔ انھوں نے پورا ہوبائی صوبہ بند کر دیا اور عارضی صحت کے مراکز قائم کیے تاکہ مریضوں کا جلد از جلد علاج ممکن ہو سکے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کے نئے مریضوں میں کمی آئی ہے اور اب ہر روز صرف چند نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔چین نے ہوبائی صوبے میں لاک ڈاؤن کیا تھا جس سے پانچ کروڑ افراد کی نقل و حرکت محدود ہوگئی تھیاس کے مقابلے باقی دنیا میں کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دو ہفتوں میں چین سے باہر کیسز 13 گنا بڑھ گئے ہیں۔ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ انھیں ’اقدامات نہ ہونے پر بہت تشویش ہے‘ جبکہ ڈبلیو ایچ او نے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری اور سخت اقدامات لیں۔سخت اقدامات نیو یارک میں خارجی تعلقات کی کونسل میں عالمی صحت پر کام کرنے والے یان جونگ نے بتایا ہے کہ چین کی حکمت عملی دیگر ممالک میں اپنانا مکمن نہیں ہو سکے گی۔’آج کے دور میں کچھ ممالک، چاہے جمہوری ہوں یا غیر جمہوری، سماجی سطح پر اتنی باریکی سے نظر رکھ سکتے ہیں۔ یہ کوئی تعریف نہیں۔ ایسا کرنے سے ریاست کی جانب سے سماجی اور انسانی نقصان زیادہ ہو سکتا ہے۔‘’

ہو سکتا ہے کہ کچھ جمہوری رہنما چین کی حکمت عملی کی پیروی کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں لیکن ان کے پاس ایسا کرنے کی طاقت اور اختیار نہیں ہے۔‘یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مغربی معاشرے، جہاں انفرادی آزادی پر زور دیا جاتا ہے، میں شہریوں کی نقل و حرکت روکی جا سکتی ہے تاکہ وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔ جیسا چین نے کیا تھا۔امریکہ نے برطانیہ کے علاوہ تمام ملکوں سے ہوائی سفر پر پابندی عائد کر دی ہے لیکن کچھ حلقوں نے صدر ٹرمپ پر تنقید کی ہے کہ وہ ملک میں وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سنجیدہ نہیں۔اٹلی کا جنوبی علاقہ ملک میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہےمائکرو بیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر روبرٹو بُریانی کہتے ہیں کہ کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے آمریت کی ضرورت نہیں ہے۔

یورپ میں اٹلی نے باقی براعظم کے مقابلے سب سے سخت لاک ڈاؤن اپنایا ہے جس میں چھ کروڑ کی آبادی کی نقل و حرکت روک دی گئی ہے۔ تمام دکانیں بند ہیں لیکن کھانے پینے کی دکانیں اور دواخانے کھلے ہیں۔لوگوں کے ایک جگہ اکٹھے ہونے پر پابندی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کا کہا گیا ہے۔ سفر کرنے والے کسی بھی شخص کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ساتھ دستاویزات رکھے جس میں سفر کی وجوہات بیان کی گئی ہوں۔ سکولز اور یونیورسٹیاں بند ہیں۔ڈاکٹر روبرٹو بُریانی نے ٹوئٹر پر لکھا: ’حقیقت میں آمریت آ گئی ہے۔ وائرس ظلم کر رہا ہے اور اس نے گلے لگنا، بوسہ دینا، دوستوں کے ساتھ کھانا پینا، کنسرٹ، (شام کے تھیٹر) لاسکالا کو بند کروا دیا ہے۔

ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ فتح کا دن خوبصورت ہو گا۔‘’بات رفتار کی ہے‘عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر بروس ایلورڈ کہتے ہیں کہ کسی ملک کے ردعمل کا انحصار اس بات پر نہیں کہ وہاں جمہوریت ہے یا آمریت۔ڈاکٹر بروس کہتے ہیں کہ دنیا نے چین کے تجربے سے صحیح سبق نہیں دیکھا۔ انھوں نے ہوبائی صوبے میں عالمی ادارہ صحت کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی سربراہی کی تھی۔صدر شی جن پنگ نے چین کے اس علاقے کا دورہ کیا جو کورونا وائرس کا مرکز سمجھا جاتا تھاانھوں نے بی بی سی کو بتایا ’ہم نے چین سے سیکھا ہے کہ بات رفتار کی ہے۔ آپ نظام تنفس کو خطرہ پہنچانے والے وائرس یا بیکٹیریا کی روک تھام کر سکتے ہیں اگر آپ تیزی سے اقدامات کریں اور جلد کیسز کی نشاندہی کر لیں اور انھیں الگ تھلگ کر دیں۔

ایسے لوگوں کے قریبی ساتھیوں کو ڈھونڈ کر انھیں بھی الگ تھلگ کر دیں۔‘’لوگوں کو سمجھنا ہو گا کہ کس سے مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ انھیں اس کی سنجیدگی کو سمجھنا ہو گا اور حکومت سے تعاون کرنا ہو گا تاکہ اقدامات اثر انداز ہو سکیں۔‘ڈاکٹر بروس کا کہنا ہے کہ وائرس کے خطرے کے پیشِ نظر وہ چینی شہریوں کی اجتماعی کوششوں سے متاثر ہوئے ہیں۔’لوگ حکومت سے ڈرے نہیں ہوئے تھے۔ لوگ وائرس سے خوفزدہ تھے اور اس بات سے ڈر رہے تھے کہ کہیں وہ ایک ساتھ کام کرتے ہوئے اسے روکنے میں ناکام نہ ہو جائیں۔ حکومت نے راستہ دکھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ ایک اجتماعی تحریک تھی۔‘مرکزی سطح پر نظم و ضبط کا قیامسعودی عرب میں اپنے ایک صوبے قطیف میں لاک ڈاؤن کیا ہےیورپ کے دوسرے ممالک اٹلی کی طرح سخت اقدمات کرنے سے کترا رہے ہیں۔برطانیہ نے اپنے شہریوں سے مطالبہ کیا ہے کہ اٹلی سے سفر کرنے والے 14 دن تک خود کو الگ تھلک رکھیں جبکہ لازمی قرنطینہ کے لیے قانون منظور کیا گیا ہے۔

تاہم حکام نے کہا ہے کہ فی الحال سکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ قبل از وقت ہو گا۔انگلینڈ کی نائب چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر جینی ہیرس نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’اگر بڑے اجتماعات پر پابندی لگانا ہماری آبادی کے لیے کارآمد اقدام ہوتا تو حکومت نے یہ فیصلہ ابھی سے لے لیا ہوتا۔ ہمارا ماڈل یہ نہیں کہتا اور ہم دھیان سے سائنس کا طریقہ اپنا رہے ہیں۔‘حکومت کو توقع ہے کہ کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہو گا۔ لیکن ڈاکٹر جینی نے کہا ہے کہ ملک تیار ہے جبکہ انھوں نے اٹلی اور برطانیہ کے صحت کے مختلف نظاموں میں فرق بیان کیا ہے۔ان کا کہنا تھا ’ان کا صحت کا نظام علاقائی سطح پر ہے اور انھیں مستقل مزاجی اختیار کرنے میں کچھ وقت لگا۔

ہمارے نظام میں کنٹرول اور اقدامات کا نظام یکجا ہے جو پورے ملک کے صحت کے مراکز میں حکومت کے احکامات پر کام کرتا ہے۔‘جنوبی کوریا میں ’ڈرائیو تھرو‘ ٹیسٹنگ مراکز بنائے گئے ہیں تاکہ لاک ڈاؤن نہ کرنا پڑےکورونا وائرس سے متاثر ملکوں میں چین، اٹلی اور ایران کے ساتھ جنوبی کوریا کا نام بھی فہرست میں شامل ہے۔ جنوبی کوریا میں حکام کی کوشش ہے کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ممکن سخت اقدام کیا جائے جس سے لاک ڈاؤن کی صورت نہ پیش آئے۔حکومت کے احکامات کے مطابق سڑکیوں پر لاکھوں لوگوں کو ان کی گاڑیوں میں ہی ٹیسٹ کیا جا رہا ہے جبکہ ممکنہ طور پر وائرس پھیلانے والوں کو موبائل فون اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈھونڈا جا رہا ہے۔

جنوبی کوریا کے صدر مون جے نے ان کوششوں کو خطرے کے خلاف ’اعلانِ جنگ‘ سے تشبیہہ دی ہے۔ملک کی آبادی تقریباً پانچ کروڑ ہے جو اٹلی کے آس پاس ہے۔ تاہم 30 ہزار سے کم لوگ قرنطینہ میں ہیں۔انفیکشن کے نئے کیسز میں کمی آئی ہے۔ 11 مارچ کو 114 نئے کیسز کی شناخت ہوئی جو گذشتہ دو ہفتوں میں فی دن سب سے کم تعداد تھی۔جاپان نے حکم دیا ہے کہ تمام سکوم اپریل تک بند رہیں گے۔ ایسے ہی اقدامات مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں لیے گئے ہیں۔لیکن پروفیسر یان جونگ کہتے ہیں مرض کو ایک جگہ محدود کرنا کل اقدامات نہیں۔

سیول اور ٹوکیو میں حکومتوں نے معیشت پر ان کے منفی اثرات کو بھی محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔انھیں علم ہے کہ چین کی طرف سے کیے گئے سخت اقدامات سے الگ طرح کے مسائل پیدا ہوئے ہیں جیسے ووہان مییں صحت کے نظام پر بوجھ ڈالنے سے شہر میں شرح اموات میں اضافہ ہوا۔ان کا کہنا ہے ’یہ ممالک بیماری کو سختی سے محدود کرنے میں توازن سے آگاہ ہیں جس سے معاشی اور سماجی سطح پر رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔‘