کورونا لاک ڈاؤن: ’ڈر ہے کہ وائرس سے پہلے بھوک سے نہ مر جائیں‘ 

انڈیا اور پاکستان میں لاک ڈاؤن کے بعد کروڑوں کی تعداد میں دیہاڑی پر کام کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے.کورونا وائرس کی عالمی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے انڈیا کو بند کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں لیکن دیہاڑی پر کام کرنے والوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار وکاس پانڈے نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ دیہاڑی دار لوگ کس طرح اس صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔

دلی کے قریب نویڈا کے علاقے میں لیبر چوک تعمیراتی کام کرنے والے مزدوروں سے بھرا رہتا ہے۔دلی کے مضافاتی علاقے میں یہ چھوٹا سا چوک ایسی جگہ ہے جہاں ٹھیکے دار اور تعمیراتی کام کروانے والے ہر روز مزدوروں کی تلاش میں آتے ہیں۔

اتوار کو انڈیا میں لاک ڈاؤن کے اعلان کے ابتدائی گھنٹوں میں جب میں اس چوک پر پہنچا تو یہاں ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مجھے اس پر یقین نہیں آیا۔میں نے ان سے محفوظ فاصلے پر رک کر پوچھا کہ کیا وہ لاک ڈاون کی پابندی کر رہے ہیں۔

اترپردیش کے ضلعے بندا سے تعلق رکھنے والے رمیش کمار نے کہا کہ وہ جانتے تھے کہ ان کو آج دیہاڑی پر لے جانے والا کوئی نہیں ملے گا لیکن پھر بھی انھوں نے اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے کہا کہ وہ چھ سو روپے روزانہ کماتے ہیں اور ان کی کفالت میں پانچ افراد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چند دنوں میں ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔’میں جانتا ہوں کہ کورونا وائرس سے کتنا خطرہ ہے لیکن میں اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا۔’

کروڑوں کی تعداد میں دیہاڑی پر کام کرنے والوں کو اسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے اعلان کردہ لاک ڈاؤن کا مطلب یہ ہے اگلے تین ہفتوں تک انھیں کام ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔حقیقت میں بہت سے لوگوں کے پاس کچھ دنوں میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔

احمد آباد کے کشن لال کا کہنا ہے کہ گذشتہ چار دنوں میں ان کی کوئی کمائی نہیں ہوئی ہے.کئی ریاستی حکومتوں نے جن میں شمال مغرب میں اتر پردیش، جنوب میں کیرالا اور دارالحکومت نئی دہلی شامل ہیں کہا ہے کہ وہ مستحق لوگ کے بینک کھاتوں میں براہ راست امدادی رقوم منتقل کریں گی۔

وزیراعظم نریندر مودی نے بھی دیہاڑی دار مزدوروں کی مالی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس میں بھی کئی مشکلات درپیش ہیں۔مزدوروں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق انڈیا میں نوے فیصد افرادی قوت غیر سرکاری یا غیر رسمی شعبوں سے وابستہ ہے جن میں رکشہ ڈرائیور، صفائی کا کام کرنے والے، سکیورٹی گارڈز یا چوکیدار، ٹھیلے والے ، کوڑا اکھٹا کرنے والے یا گھروں میں کام کرنے والے شامل ہیں۔

ان کی اکثریت کو پینشن، تنخواہ سمیت چھٹیوں یا بیماری کی چھٹیوں یا کسی انشورنش کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کے بینکوں میں اکاؤنٹس بھی نہیں ہیں اور وہ روز کماتے اور روز کھاتے ہیں۔

ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے گھروں سے دور کسی دوسری جگہ یا ریاست میں جا کر کام کرتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی ایک جگہ مستقل قیام نہیں کرتے اور روزگار کی تلاش میں ایک ریاست سے دوسری ریاست اور شہر سے دوسرے شہر سفر کرتے رہتے ہیں۔

اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یقیناً یہ بہت پیچیدہ مسائل ہیں اور کسی بھی حکومت کو کبھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔انھوں نے کہا کہ حکومت کو برق رفتاری سے کام کرنا ہو گا کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورت حال بدل رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں کمیونٹی باورچی خانوں کا انتظام کرنا ہو گا تاکہ بڑی مقدار میں کھانا بنا کر متاثرہ افراد تک پہنچایا جا سکے۔ ہمیں نقد رقوم، آٹا اور چاول لوگوں میں تقسیم کرنے ہوں گے یہ دیکھے بغیر کہ کون کسی ریاست سے تعلق رکھتا ہے۔‘

احمد آباد کا یہ موچی یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ لوگ سفر کیوں نہیں کر رہےاکھلیش یادو کو اپنی ریاست اتر پردیش کے بارے میں بہت تشویش ہے کیوں کہ یہ انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے جس کی مجموعی آبادی 22 کروڑ کے قریب ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس وبا کو پھلینے سے روکنے کے لیے انھیں لوگوں کے ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرنے کو بھی روکنا ہو گا اور اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ لوگوں تک خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔‘

اکھلیش یادو کا کہنا تھا ’کسی بھی مشکل وقت میں شہروں میں آ کر کام کرنے والے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں جو اس وبائی صورت حال میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے‘۔

اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ انھوں نے سرکاری اہلکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو ایسے لوگوں کا پتا لگائے گی جو دوسری جگہوں یا شہروں سے آئے ہوئے ہیں اور جس کسی کو بھی مدد کی ضرورت ہو گی اس کی مدد کی جائے گی۔ انڈیا کے وزیرِ ریلوے نے مارچ کی 31 تاریخ تک تمام مسافر گاڑیوں کی آمدورفت معطل کر دی ہے۔

مسافر گاڑیوں کی آمدورفت کے معطل ہونے سے چند دنوں قبل لاکھوں لوگوں نے کورونا وائرس سے متاثرہ شہروں دہلی، ممبئی اور احمد آباد سے چھتوں تک بھری ہوئی ٹرینوں میں بیٹھ کر اترپردیش اور بہار میں اپنے اپنے قصبوں اور دیہات کا سفر کیا۔

اس کی وجہ سے کورونا وائرس کے ملک کے دور دراز علاقوں تک پھیل جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور ماہرین کو ڈر ہے کہ آنے والے ہفتوں میں انڈیا کے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔تاہم ہر کوئی اپنے گھر جانے کی اسطاعت نہیں رکھتا۔

کشن لال شمالی شہر احمد آباد میں رکشہ چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چار دنوں میں ان کی کوئی کمائی نہیں ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ انھیں اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں ہے لیکن انھوں نے سنا ہے کہ حکومت نے مالی مدد دینے کا وعدہ کیا ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ کب اور کیسے۔

کشن لال کے دوست علی حسن جو ایک دکان میں صفائی کا کام کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ جس دکان میں وہ کام کرتے تھے وہ دو دن سے بند ہے اور انھیں کوئی مزدوری نہیں ملی ہے۔ انھیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ یہ دکان کب کھلے گی۔’میں بہت خوف زدہ ہوں۔ میرے بیوی بچے ہیں میں ان کا پیٹ کیسے بھروں گا۔’

انڈیا میں کروڑوں لوگ چھوٹے کاروباری ہیں جو دکانیں یا چھوٹا موٹا کاروبار چلاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو روزگار بھی مہیا کرتے ہیں۔محمد صابر کا دہلی میں دودھ اور دہی کا چھوٹا سا سٹال ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گرمیوں میں کام زیادہ ہونے کی امید پر انھوں نے دو افراد کو کام پر رکھا تھا۔

’اب میں ان کو تنخواہ نہیں دے سکتا۔ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے۔ گاؤں میں ہمارے خاندان کی کچھ کھیتی باڑی ہے جہاں سے انھیں کچھ رقم مل جاتی تھی لیکن اس مرتبہ ژالہ باری سے فصل تباہ ہو گئی اور وہ بھی مدد کے لیے اب میری طرف دیکھ رہے ہیں۔’انھوں نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو بالکل بےبس محسوس کرتے ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ کورونا سے پہلے وہ بھوک سے مر جائیں گے۔
محمد صابر کا دہلی میں دودھ اور دہی کا چھوٹا سا سٹال ہے لیکن وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دے سکتے.ملک کے تمام تاریخی مقامات بند ہیں جس کا اثر ان لوگوں پر بری طرح پڑے گا جن کی روزی کا انحصار ان مقامات کی سیر کرنے کے لیے آنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں پر تھا۔

تیج پال کشیپ کا جو دلی کے تاریخی انڈیا گیٹ پر فوٹوگرافی کر کے روزگار کماتے تھے، کہنا ہے کہ انھوں نے کاروبار کے کبھی اتنے برے حالات نہیں دیکھے۔انھوں نے کہا کہ ’گذشتہ دو ہفتوں سے جب ابھی لاک ڈاؤن کا اعلان نہیں ہوا تھا تو کوئی کاروبار نہیں تھا اور کوئی سیاح نہیں تھا۔ اب میں یہاں پھنس گیا ہوں نہ واپس اپنے گاؤں جا سکتا ہوں نہ ہی کوئی کام مل رہا ہے۔ میں اترپردیش میں اپنے بچوں اور بیوی کے لیے بہت پریشان ہوں۔’ ٹیکسی سروس اوبر اور اولا کے ڈرائیوروں کا بھی یہ ہی حال ہے۔

یوگندر چودھری جو دلی میں ایک فضائی کمپنی کے ملازمین کے لیے ٹیکسی چلاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان جیسے لوگوں کو مالی مدد فراہم کرنی چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ’وہ لاک ڈاؤن کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ کورونا وائرس خطرناک ہے اور اس سے بچنا چاہیے لیکن میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اگر لاک ڈاؤن تین ہفتوں تک چلتا رہا تو میں کسی طرح اپنا اور اپنی فیملی کا گزارہ کروں گا۔’

فوٹوگرافر تیج پال کشیپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے کاروبار کے کبھی اتنے برے حالات نہیں دیکھے. کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اب تک کورونا وائرس کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ ایک موچی نے اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ احمد آباد کے ریلوے سٹیشن کے باہر برسوں سے مسافروں کے جوتے پالش کرنے کا کام کر رہے ہیں لیکن اب کوئی نظر نہیں آ رہا۔
انھوں نے کہا کہ انھیں معلوم نہیں کہ لوگوں نے سفر کرنا کیوں بند کر دیا ہے۔ ’نہیں جانتا کہ ان دنوں لوگ ریلوے سے سفر کیوں نہیں کر رہے۔ مجھے یہ تو معلوم ہے کہ کوئی کرفیو وغیرہ لگا دیا گیا ہے لیکن کیوں اس کا مجھے علم نہیں ہے۔’

وینود پرجاپتی جو اسی علاقے میں پانی کی بوتلیں فروخت کرتے ہیں، انھوں نے اس بات چیت میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وہ کورونا وائرس کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔ ’یہ بہت خطرناک وائرس ہے اور اس سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے۔ زندگی یا بھوک ہمیں کس کا انتخاب کرنا چاہیے۔‘

وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان کو لاک ڈاؤن نہیں کیا جاسکتا، ملک میں کورونا کے ویسے حالات نہیں، جیسے دوسرے ممالک میں ہیں، ہماری معاشی حالت ایسی ہے، اگر لاک ڈاؤن کیا تو ہمارے لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔اب حالات کی وجہ سے لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے تو وزیراعظم نے عوام کو یقین دلایا کہ وائرس کی جنگ حکومت اکیلی نہیں لڑ رہی ، بلکہ یہ جنگ قوم کو لڑنا ہوگی۔

پہلی چیز جہاں بھی بڑے اجتماعات ہورہے ہیں، وہاں نہ جائیں، بند کمروں میں اگر زیادہ لوگ ہیں تو وہاں نہ جائیں، اسی طرح ہاتھ ملانے سے وائرس پھیلتا ہے، ہاتھ ملانے والا جب اپنی آنکھوں اور منہ کو لگاتا ہے تو وائرس پھیلتا ہے، ہاتھوں کو واش کرنا ہے، بیرون ممالک سے آنے والے خود کو اکیلا رکھیں، کم ازکم 2 ہفتے احتیاط کریں، چوتھی چیز یہ ہے کہ اگر کسی کو نزلہ زکام یا کھانسی ہوجائے تو فوری ہسپتال نہیں جانا، اٹلی کے پاس وسائل ہیں وہ نہیں کرپارہے ہیں

۔90 فیصد لوگ تو ویسے ہی تھوڑی سی علامات کے باعث ٹھیک ہوجاتے ہیں، اس لیے گھروں میں رہیں۔ احتیاط کریں۔ گھبرانا نہیں ہے، ہمارا بطور مسلمان ایمان ہے زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ احتیاط کرو، اونٹ بھاگنے کا ڈر ہے تو اس کو باندھو۔ ہم انشاء اللہ یہ جنگ جیتیں۔ اپنے ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف کو کہتا ہوں پوری قوم آپ کے ساتھ ہے۔

اورسیزپاکستانیوں کو چاہیے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی پوری طرح مدد کی جائے۔ ہمارے طلباء جو ووہان میں ہیں ، ان کے لیے خوشخبری ہے کہ چین نے وائرس پر قابو پالیا ہے، دنیا میں وائرس اوپرجارہاہے، جبکہ چین میں اب نیچے جارہا ہے۔علماء کرام سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ پربڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کردار ادا کریں۔